حیدر آباد کی جنگ آزادی کا روح رواں، طرۂ باز خاں

طرۂ باز خاں کو شیر حیدر آباد بھی کہا جاتا ہے، جن کی ولادت روہیلہ سردار رستم خاں ساکن بیگم بازار کے گھر میں ہوئی تھی۔ برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی پاداش میں انہیں کالے پانی کی سزا سنائی گئی تھی

 حیدر آبادکی جنگ آزادی کا روح رواں، طرۂ باز خاں
حیدر آبادکی جنگ آزادی کا روح رواں، طرۂ باز خاں
user

شاہد صدیقی علیگ

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نظام افضل الدولہ ہندوستان کی ان ریاستوں کے فرماں رواؤں میں سے ایک ہیں جنہوں نے پہلی ملک گیر جنگ آزادی 1857 میں تاجران فرنگ کا تن من دھن سے ساتھ دیا تھا۔ ریاست حیدر آباد نے 1800 میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے ذیلی اتحاد کے معاہدے پر دستخط کر دیے تھے، جس کی رو سے ان کا ساتھ دینا لازمی تھا، مگر ساکنان حیدر آباد نے اپنے حکمراں کے برخلاف 17 جولائی 1857 کو بغاوت کا علم بلند کر دیا۔ جس کا سہرا طرۂ باز خاں کے سر ہے۔ جنہوں نے مولوی علاءالدین کے ساتھ مل کر 5000 بہادر جنگجوؤں کا لشکر تیار کیا تھا۔

طرۂ باز خاں کو شیر حیدر آباد بھی کہا جاتا ہے، جن کی ولادت روہیلہ سردار رستم خاں ساکن بیگم بازار کے گھر میں ہوئی تھی۔انہوں نے اپنی طبیعت اور وراثت میں ملی پامردی کے باعث فوج میں ملازمت اختیار کر لی۔ تاہم طرۂ باز خاں کی ابتدائی زندگی کے بارے میں حد درجہ ورق گردانی کے بعد زیادہ معلومات فراہم نہیں ہو سکیں۔


1857 میں شمالی ہند کے مجاہدین کی ابتدائی کامیابیوں کی خبروں نے حیدرآباد کی فضا کو مضطرب کر دیا تھا، اہلیان حیدر آباد خصوصاً علماء، طلباء اور روہیلہ فوجی طرۂ باز خاں اور مولوی مولانا علاء الدین کی رہنمائی میں کمپنی کے خلاف کمر بستہ ہو گئے۔ 12 جون 1857 کو علماء کی جانب سے ایک اعلان شائع ہوا جو 13 جون کو شہر کے دیگر مقامات کے علاوہ تاریخی مکہ مسجد کی دیوار پر بھی چسپاں نظر آیا۔ جس میں نظام اور عوام سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ کمپنی عمل داری کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن نظام افضل الدولہ اور ان کے امرا پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اسی بیچ اورنگ آباد کے قرب وجوار میں بغاوت کا ناقوس پھونک کر صوبے دار چید ا خاں معہ 15/باغی سپاہی حیدر آباد پہنچے، تو نظام کے وزیر میر تراب علی خاں نے انہیں اسیر کر کے ریذیڈنٹ کرنل کتھبرٹ ڈیوڈسن کوسونپ دیا۔

ان گرفتاریوں نے آگ پر گھی ڈالنے کا کام کیا، جس کے خلاف 17 جولائی 1857 بروز جمعہ ایک زبردست احتجاجی جلسہ مکہ مسجد میں منعقد ہوا۔ جس میں رشید الدین، اقتدار الملک، عظمت جنگ، لشکر جنگ،محمد یار خاں اور حکیم ابراہیم جیسی نامور ہستیاں شامل ہوئیں جلسے میں طے پایا کہ ایک وفد نظام سے مل کر چیدا خاں اور ان کے ساتھیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرے اگریہ ممکن نہ ہوا تو پھر ریزیڈنسی پر یلغار کردی جائے۔ اس کی خبر جیسے ہی سالار جنگ کو موصول ہوئی۔ اس نے مکہ مسجد کے جم غفیر کو منتشر کرنے کے لیے ایک عربی دستہ روانہ کرنے کے علاوہ ریزنڈنٹ کو بھی مطلع کر دیا، نظامی دستہ نے بھیڑ کو منتشر کر دیا مگر شام کے وقت مولانا علاءالدین کی رہنما ئی میں 500 مجاہدین کا ایک جتھہ ریز یڈنسی کی جانب روانہ ہوا۔


اثنائے راہ طرۂ باز خاں، جہانگیر خاں، عربی اور روہیلہ کفن بردوش جیالے بھی شریک ہو گئے۔ ان کا سامنا کرنے کے لیے ریزنڈنٹ نے فی الفور میجر ایس سی بریگز کی کمان میں انگریز سپاہیوں کو بھیجا۔ انقلابیوں نے ریزنڈنسی کی مغربی دیوار کی جانب عبن صاحب اور جے گوپال داس کے گھر وں پر مورچے جما لیے اور شدید گولہ باری کا آغاز کر دیا، اسی بیچ بعض انقلابی عظیم علی خاں کے گھر کی دیوار کو منہدم کرکے ریزیڈنسی میں داخل ہو گئے لیکن آزمودہ کار انگریزی سپاہیوں کے جدید اسلحہ کے سامنے ان کا ٹکنا مشکل ہو گیا۔ اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری، ساری رات مقابلہ جاری رہا۔ آخرکار غازیان ہند کو صبح چار بجے شکست اٹھانی پڑی۔تقربیاً 30 مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا اور متعدد زخمی ہوئے۔ بیشتر انقلابی برطانوی نرغے کو توڑ کر بچ نکلے۔

بعد ازاں 19 جولائی کو طرہئ باز خاں کو زخمی حالات میں بمقام طوپران کے نزد جنگلات سے گرفتار کرکے لایا گیا۔ حیدرآباد کی عدالت میں طرۂ باز خاں پر مقدمہ چلا یا گیا۔ جن سے سماعت کے دوران بار بار اپنے ساتھیوں کے نام پتے بتانے کے لیے زور ڈالا گیا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ بغاوت کی پاداش میں انہیں کالے پانی کی سزا سنائی گئی لیکن جیل میں کمپنی اہلکار ا ن کے ساتھ ہمدردی اور رغبت رکھتے تھے، بجہت وہ 18 جنوری 1959 مطابق 13 جمادی الآخر 1275 کی شب میں قید فرنگ سے فرار ہو گئے۔


اگلے ہی روز 19 جنوری 1859 کو طرۂ باز خاں کی گرفتاری پر پانچ ہزار روپے کا انعام مشتہر کر دیا گیا۔ حرص و طمع کے پیکر قربان علی، محمد خاں جمعدار اور چند لوگوں کو لے کر اس مقام پر پہنچ گیا جہاں طرۂ باز خاں چھپے ہوئے تھے۔ جن کے پاس مفرور ہونے کا پورا موقع تھا لیکن غیور روہیلوں نے پیٹھ دکھانے کے بجائے شہادت کو ترجیح دی۔ چھٹ پٹ تصادم کے بعد 24 جنوری کو طرۂ باز خاں قربان علی کی بندوق کانشانہ بن کر وطن کی حرمت پر شہید ہو گئے۔ عوام میں خوف و حراس پیدا کرنے کے لیے طرۂ باز خاں کی لاش کو ریذیڈنسی میں لا کر ایک درخت پر برہنہ لٹکا دیا گیا۔ ادھر مولانا علاء الدین مختلف مقامات پر پندرہ سولہ مہینے روپوش رہنے کے لعد ایک مخبر کی اطلاع پر بنگلور کے ایک دیہات منگاپلی سے محروس کر لیے گئے اور حیدر آباد میں رسمی مقدمہ چلا کر حبس دوام کی سزا دی گئی۔ اس طرح حیدر آباد کی تحریک آزادی کو پروان چڑھنے سے قبل ہی دبا دیا گیا۔

حیدر آباد میں 1857 کی بغاوت کے مجاہدین کی ایک یادگار کے علاوہ ایک سڑک دلیر طرۂ باز خاں کے نام سے موسوم ہے جو حیدر آباد کے عظیم جانبازوں کی بہادری کو بار بار یاد دلاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔