کیا خواتین ریزرویشن بل کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ آسان نہیں ہے؟

بل میں خواتین کو دیئے جانے والے 33 فیصد ریزرویشن میں سے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی خواتین کے لیے ایک تہائی ریزرویشن دینے کی تجویز ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

کل  حکومت نے ناری شکتی وندن ایکٹ بل  کے نام سے خواتین ریزرویشن بل پیش کیا اور کہا کہ اس سے لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی بڑھے گی۔ پارلیمنٹ میں خواتین کے لیے ایک تہائی کوٹہ بنانے کی کوششیں 1996 سے جاری ہیں۔ مارچ 2010 میں، راجیہ سبھا نے آئین (108 ویں ترمیم) بل، 2008 منظور کیا، لیکن یہ قانون لوک سبھا میں پیش نہیں کیا جا سکا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ بل دونوں ایوانوں میں منظور ہو جاتا ہے تو  کیا یہ سال 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں لاگو ہوگا یا نہیں ؟

بل میں خواتین کو دیئے جانے والے 33 فیصد ریزرویشن میں سے درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی خواتین کے لیے ایک تہائی ریزرویشن دینے کی تجویز ہے۔ تاہم، او بی سی کمیونٹی کی خواتین کے لیے ریزرویشن کی کوئی تجویز نہیں ہے، جس کا مسئلہ آر جے ڈی اور ایس پی مسلسل اٹھا رہے ہیں۔ جب بھی یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا دونوں جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار ان کا کیا موقف ہے کیونکہ یہ دونوں پارٹیاں I.N.D.I.A اتحاد کا حصہ ہیں جب کہ کانگریس سمیت اتحاد میں شامل دیگر پارٹیاں بل کی حمایت میں ہیں۔واضح رہے  آر جے ڈی اور ایس پی او بی سی طبقے کی سیاست کرتے رہے ہیں۔


اب غور طلب بات یہ ہے کہ مخصوص نشستوں کی نشاندہی کیسے کی جائے گی۔ بل میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں ایک تہائی نشستیں خواتین کے لیے مختص ہوں گی۔ تاہم اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ سیٹوں کی نشاندہی کیسے کی جائے گی۔ یہاں تک کہ 2010 میں جب یہ بل پیش کیا گیا تو اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خواتین کے لیے کون سی نشستیں الگ رکھی جائیں گی۔ تاہم، حکومت نے تجویز پیش کی تھی کہ خواتین کے لیے مخصوص حلقے قرعہ اندازی کے ذریعے حاصل کیے جائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ لگاتار تین انتخابات میں ایک سے زیادہ نشستیں محفوظ نہ ہوں۔ اس کے ساتھ ہی منگل کو پیش کیے گئے بل میں مخصوص نشستوں کو گھمانے کی تجویز بھی ہے۔ تاہم، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ خواتین کے لیے 33 فیصد مخصوص نشستوں کی نشاندہی کیسے کی جائے گی۔ بل پر آج  سے بحث شروع ہو گی۔

خواتین کے ریزرویشن بل کے پاس ہونے پر جن آئینی ترامیم کی ضرورت ہو گی، ان میں حد بندی کے لیے آرٹیکل 82 اور 170(3) میں بھی ترمیم ہے۔ خواتین کے ریزرویشن کو حد بندی کے بعد ہی لاگو کیا جائے گا۔ ہر مردم شماری کے بعد، حد بندی ایکٹ آرٹیکل 82 کے تحت لاگو کیا جاتا ہے، جس میں مردم شماری کے بعد علاقائی حلقہ بندیوں کی نئی تعریف کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی آرٹیکل 170(3) کا تعلق اسمبلیوں کی تشکیل سے ہے۔ اگر خواتین ریزرویشن بل منظور ہوتا ہے تو یہ 15 سال کے لیے لاگو ہوگا۔ تاہم 15 سال کی مدت پوری ہونے کے بعد اس میں مزید توسیع کی جاسکتی ہے جس کے لیے بل کو دوبارہ پارلیمنٹ میں پیش کرنا ہوگا۔ ایک اور بات قابل غور ہے کہ بل کے ذریعے خواتین کو صرف لوک سبھا اور قانون ساز اسمبلیوں میں ریزرویشن ملے گا۔ یہ راجیہ سبھا اور قانون ساز کونسلوں میں لاگو نہیں ہوگا۔


یہاں تک کہ اگر خواتین ریزرویشن بل منظور ہو جاتا ہے، تو یہ آئندہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں لاگو نہیں ہوگا کیونکہ حد بندی کا کام مکمل نہیں ہوا ہے۔ حلقہ بندیوں کا کام 2026 میں شروع ہو گا، حلقوں کی تقسیم کے بعد ہی فیصلہ کیا جا سکے گا کہ خواتین کے لیے کون سی نشستیں مختص ہوں گی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی بنیاد پر وقتاً فوقتاً حلقہ بندیوں کا از سر نو تعین کیا جاتا ہے تاکہ جمہوریت میں آبادی کی صحیح نمائندگی ہو اور سب کو یکساں مواقع مل سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔