اسمبلی انتخابات کے نتائج نے لکھ دی ہے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کی اسکرپٹ!

5 ریاستوں کے اسمبلی نتائج سے یہ پیغام صاف ہے کہ بی جے پی کےدن جانے والے ہیں اور کانگریس کے دن آنے والے ہیں، مودی کا یہ دعوی کہ ملک کے سب سے بڑےعہدے کے لئے2024 تک کوئی جگہ خالی نہیں ہے، جملہ ہی نکلا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ظفر آغا

نریندر مودی نے 2014 میں اپنے حامیوں اور کارکنوں سے 'کانگریس مکت بھارت' کا وعدہ کیا تھا، کوئی ساڑھے چار سال بعد لوگوں نے بی جے پی کو دروازہ دکھانا شروع کر دیا، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں اسمبلی انتخابات کے نتائج صاف اشارہ دے رہے ہیں کہ ملک کے بڑے حصے میں ووٹروں کے رجحانات بدل رہے ہیں، صاف ہے کہ ووٹروں کی پہلی پسند بی جے پی نہیں رہ گئی ہے اور یقینی طور پر نریندر مودی کا طلسماتی کرشمہ اپنی چمک کھو رہا ہے، وہیں کانگریس نے تیزی سے شاندار واپسی کی ہے اور راہل گاندھی وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے ایک بڑے چیلنج کے طور پر سامنے آئے ہیں۔

راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے اور وہاں کانگریس حکومت بنانے کی قواعد بھی شروع ہو گئی ہے، لیکن مدھیہ پردیش میں اب بھی تذبذب برقرار ہے، لیکن مدھیہ پردیش میں یہ صاف ہوگیا ہے کہ بی جے پی اپنے ڈیڑھ دہائی کے تسلط کو کھو چکی ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی کا کوئی وجود ہی نہیں تھا، اسی لئے ان انتخابات میں بھی اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگا۔

لیکن پانچوں ریاستوں کے اسمبلی نتائج سے یہ پیغام صاف ہے کہ بی جے پی کے دن جانے والے ہیں اور کانگریس کے دن پھر پوری طاقت کے ساتھ واپس آنے والے ہیں، نریندر مودی کا یہ دعوی کہ ملک کے سب سے بڑے عہدے کے لئے 2024 تک کوئی جگہ خالی نہیں ہے، یہ بھی جملہ ہی نکلا اور کھوکھلا ثابت ہوا، کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن نے متحد ہونا شروع ہو کردیا ہے اور اگلے سال کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی حکومت کو اکھاڑ پھیکنے کا عہد کیا جا رہا ہے۔

لیکن ملک میں اس ڈرامائی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جس کے سبب تبدیلی ہو رہی ہے؟ آخر کار نریندر مودی تو وزیر اعظم ہیں اور 2014 میں تو انہوں نے اکیلے اپنے دم پر بی جے پی کو تین دہائی بعد پہلی بار مکمل اکثریت کا ذائقہ چكھايا۔ ملک نے مودی پر آنکھ بند کر کے بھروسہ جتایا تھا اور متوسط طبقہ کی خواہشات نے انہیں اقتدار کی چوٹی پر پہنچایا تھا۔

سچ مانو تو 2014 میں مودی ناقابل شکست نظر آ رہے تھے، متوسط طبقے نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا، بزنس کلاس اور کارپوریٹ انڈیا نے انہیں مسیحا قرار دیا اور غریبوں کو یہ امید جاگی کہ مودی کے آنے سے ان کی زندگی بدل جائے گی۔

لیکن مودی نے سبھی کو مایوس کیا، ملک کا متوسط طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے، کیونکہ معیشت کا توازن بگڑ چکا ہے، نوجوان طبقہ اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہے اور اسے صحیح راستہ نظر نہیں آ رہا، روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں، بے روزگاری منہ کھولے کھڑی ہے، نوٹ بندی اور جلد بازی میں لاگو جی ایس ٹی نے کاروبار کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، گاؤں کے غریب اور کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں اور چھوٹے شہروں کے لوگ آج بھی اپنے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے آنے کے انتظار میں ہیں، آخر یہ وعدہ تو مودی نے ہی کیا تھا۔

دراصل ہوا یہ کہ نریندر مودی نے ملک کے لوگوں کے ساتھ فریب کیا اور لوگ ان کے جھانسے میں آگئے، لیکن، فریب اور جھانسہ ایک بار ہی کام کرتا ہے، مودی نے 2014 کے انتخابات سے قبل خود کی ایسی مارکیٹنگ کی کہ لوگ سحرانگیز ہوگئے اور اسی کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے اقتدار حاصل کرلیا۔ لیکن کہاوت ہے کہ آپ کچھ لوگوں کو تو کبھی کبھی بے وقوف بنا سکتے ہو، لیکن سب لوگوں کو ہر بار بے وقوف نہیں بنا سکتے، آخر کار ہم وطنوں نے نریندر مودی کی اصلیت پہچان لی، اور اب وہ انہیں سبق سکھانے کی تیاری میں ہیں۔ ان پانچ ریاستوں کے انتخابی نتائج اس کی مثال ہیں کہ 2019 میں کیا ہونے والا ہے۔

صرف نریندر مودی کی ہی حقیقت عیاں نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس کا خامیازہ ان کی اپنی پارٹی بی جے پی کو بھی اٹھانا پڑا ہے، شیوراج سنگھ چوہان، وسندھرا راجے، رمن سنگھ جیسے بی جے پی کے علاقائی رہنماؤں کا وقت ختم ہو چکا ہے، مودی نے نہ صرف ان علاقائی لیڈروں کو آگے نہیں بڑھنے دیا، بلکہ ان کے ہاتھوں اپنے تمام منصوبوں کو لاگو بھی کرایا۔ ہندی بیلٹ میں ان لیڈروں کی شکست ہونا بی جے پی کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگا، یہ وہی ریاستیں ہیں جہاں سے بی جے پی کو قومی سطح پر خود کو قائم کرنے میں مدد ملی تھی۔

ملک نے بی جے پی-سنگھ کی طرف سے شروع کئے گئے ہندوتوا کو بہت بھگت لیا ہے اور لوگوں کو اس کی اصلیت اور نیت دونوں ہی صاف نظر آنے لگے ہیں۔ ہندوتوا کے ساتھ دقت یہ ہے کہ اس کی جڑیں آج بھی زمانہ قدیم میں ڈھونڈی جاتی ہیں اور ایسے ہندوستانیوں کی سوچ سے مطابقت نہیں كھاتیں جو جدید اور ترقی یافتہ دنیا میں نئے امکانات تلاش کرتے ہیں۔ گئوركشا کی سیاست، سنت کانفرنس کچھ لوگوں کو تو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں، لیکن متوسط طبقہ کو ان مدوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔

آخرکار ہندوستان کوئی پاکستان تھوڑے ہی ہے، کیونکہ وہاں کے حکمراں جب طاقت کے زعم میں آئین کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور آئینی اداروں کو کمزور کرتے ہیں تو لوگوں کو فرق نہیں پڑتا، لیکن ہمارے یہاں تو لوگ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ارجت پٹیل، جسٹس چیلامیشور جیسے بہت سے لوگ ہیں جو اداروں کی آزادی کے لئے سینہ تان کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ مودی اور ان کی بی جے پی نے میڈیا کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے، جس کے ذریعے وہ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی سازش رچتے رہتے ہیں۔ لیکن ایک عام ہندوستانی کے ضمیر کو کیسے قید کا جاسکتا ہے جس کے پاس آج کے میڈیا سے کہیں زیادہ سمجھ ہے اور جو صحیح اور غلط کو اچھی طرح پہچانتا اور سمجھتا ہے۔

نفرت کی سیاست بھلے ہی کچھ وقت کے لئے لوگوں کی نظروں پر پردا ڈال دے، لیکن یہ ملک کی صدیوں پرانی ثقافت اور اعتماد کو ہلا نہیں سکتی، جمہوریت ہی ہندوستانی اقدار اور تہذیب کی بنیاد ہیں اور ہندوتوا کی سیاست اس بنیاد پر ٹک ہی نہیں سکتی، مودی اور سنگھ نے ہندوستانی اقدار کو تبدیل کرنے کی جرأت کی ہے، اور لوگ انہیں سزا دینے کے لئے بے چین نظر آرہے ہیں۔

ہو سکتا ہے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی اور ان کی بی جے پی کو خارج کرنا ابھی جلدبازی ہو، لیکن ملک بدل رہا اور اس کی شروعات کم از کم ان پانچ ریاستوں میں تو ہو ہی چکی ہے، جسے 2019 کی ابتدا تو کہی جاسکتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Dec 2018, 10:05 PM