اتنے ظلم کے بعد یہاں کون رہنا چاہے گا، لساڑی کے مسلمانوں کا درد

میرٹھ کا لساڑی گاؤں شہ سرخیوں میں ہے کیوں کہ یہاں کے 40 مسلم خاندانوں نے ہجرت کرنے کا اعلان کر دیا ہے، ان کا الزام ہے کہ انہیں اکثریتی طبقہ پریشان کر رہا ہے اور پولس ان کی نہیں سنتی۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

میرٹھ کے لساڑی گاؤں سے گراؤنڈ رپورٹ

میرٹھ کے سب سے پسماندہ علاقہ تاراپوری کی تقریباً 2 لاکھ مسلم آبادی کو پار کرنے کے بعد جنوبی سرے پر آخری گاؤں لساڑی ہے۔ میرٹھ کے مختلف گاؤں اب شہر میں شامل ہو گئے ہیں اور لساڑی بھی انہیں میں سے ایک ہے۔ اس گاؤں کی 20 فی صد آبادی مسلم ہے اور 25 فیصد دلت آبادی ہے۔ دیگر 55 فیصد آبادی میں اتحاد قائم رکھنے کے لئے سیاسی رہنما ہرچند کوشش کر رہے ہیں، گاؤں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ پچھلے 2 سال سے یہاں ہرواقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے ، جس سے وہ اب عاجز آ چکے ہیں۔

لساڑی گاؤں کی کل آبادی 30 ہزار ہے، اب یہ صرف نام کا ہی گاؤں رہ گیا ہے کیوں کہ یہاں سے اب میرٹھ میونسپل کارپوریشن کے لئے کونسلر کا انتخاب ہوتا ہے۔

گاؤں میں 21 جون کو بائیک کھڑی کرنے کو لے کر تنازعہ ہوا تھا اور دو لڑکوں کے بیچ مار پیٹ ہو گئی تھی۔ معاملہ نے اتنا طول پکڑا کہ علاقہ کا امن و سکون ہی ختم ہو گیا۔ جھگڑا لساڑی میں ریلوی کراسنگ کے نزدیک جونی حلوائی کی دکان پر ہوا تھا۔ اسی گاؤں کے رہائشی حنیف کا بیٹا چاند (23) جونی کے پاس والی نائی کی دکان پر اپنی موٹر سائیکل سے بال کٹوانے کے لئے گیا تھا۔ جونی کی دکان کے باہر پارکنگ کو لے کر تنازعہ ہوا اور دنوں میں ہاتھاپائی ہو گئی۔ اس کے بعد افواہوں سے ایسا ماحول تیار ہوا کہ دو فرقوں میں جھگڑا ہو گیا اور تقریباً دو درجن سے زیادہ لوگ آپس میں بھڑ گئے۔ بس پھر کیا تھا، مقامی سیاسی رہنماؤں کو روٹیاں سیکنے کا موقع مل گیا تاحال گاؤں کا ماحول کشیدہ ہے ۔

پولس کا کہنا ہے کہ معاملہ فرقہ وارانہ نہیں ہے اور ایف آئی آر میں بھی یہ بات نہیں لکھی گئی، لیکن مسلم نائی شاہ عالم کی دکان ہندو مالک نے اس واقعہ کے بعد فوری طور پر خالی کرا لی۔
اتنے ظلم کے بعد یہاں کون رہنا چاہے گا، لساڑی کے مسلمانوں کا درد

گاؤں کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ گاؤں میں ہر چھوٹی بڑی بات کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا جاتا ہے ۔ وہ تعداد میں کم ہیں اس لئے دہشت میں آ جاتے ہیں، اس لئے ان لوگوں نے یہاں نہ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تھانہ برہم پوری میں جونی کمار کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کے مطابق’ 21 جون کو 11 بجے چاند (23) نے اس کی دکان میں موٹر سائیکل سے ٹکر مار دی، گالی گلوج کی گئی ، اس کے بعد 20-25 لوگوں نے چھرے، فرسے، چاقو، طمنچے اور لاٹھی ڈنڈے لے کر اس کی دکان پر حملہ بول دیا اور 70-80 ہزار روپے لوٹ لئے۔ ‘

معاملہ میں 7 نوجوانوں چاند، خالد، گاندھی، سمیر، ادریس اور سمیع کو نامزد کیا گیا ہے۔ ان میں سے سمیر کی عمر محض 16 سال ہے۔

پولس نے اس کے بعد چاند اور سمیر کو گرفتار کر لیا۔ پولس کی بار بار کی چھاپہ ماری سے تنگ آ کرتقریباً تمام مسلم نوجوان ہجرت کر کے چلے گئے ہیں۔ مقامی سطح پر پولس کی کارروائی سوالوں کے گھیرے میں ہے اور مسلمانوں میں پولس کا خوف صاف نظر آ رہا ہے۔

اتنے ظلم کے بعد یہاں کون رہنا چاہے گا، لساڑی کے مسلمانوں کا درد

گھروں سے ہجرت کے پوسٹر دیر رات پولس نے اتار دیئے ہیں ۔ بی جے پی کے مقامی رکن اسمبلی سومیندر تومر نے پولس کی یکطرفہ کارروائی سے عاجز آکرہجرت کی بات کرنے والے مسلمانوں کے خلاف ہی مقدمہ درج کرنے کی مانگ کی ہے۔

لساڑی پہنچنے پر آپ کو معلوم چل جائے گا کہ یہاں کے مسلمان کس قدر خوف میں ہیں۔ پولس اب ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے والے مسلمانوں کو ہی ڈرا دھمکا رہی ہے۔ لساڑی کے رہائشی رئیس عالم نے ’قومی آواز‘ کو بتایا کہ ’’پہلے تو پولس نے دو فرقوں کے جھگڑے میں یکطرفہ مقدمہ درج کر لیا ، جبکہ زخمی دونوں طرف کے لوگ ہوئے تھے۔ ایک فریق کا میڈیکل بھی نہیں کرایا گیا اور دوسرے کو وی آئی پی ٹریٹمنٹ دیا گیا۔ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کے لئے دباؤ بنایا گیا اور لگاتار چھاپہ ماری کی ۔ سموسہ بیچنے والے نے 80 ہزار کی لوٹ لکھا دی ۔ جب لوگوں نے پولس کی اس ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی تو انہیں جیل بھیجنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔

اتنے ظلم کے بعد یہاں کون رہنا چاہے گا، لساڑی کے مسلمانوں کا درد

پولس کی ناانصافی کو لے کر مسلمانوں میں شدید غصہ ہے ، معاملہ کے ملزم بنائے گئے سمیع (18 )کی ماں فرزانہ (43) کے مطابق ان کے دیور کی 22 تاریخ کو شادی تھی ۔ فرزانہ کا کہنا ہے کہ شادی کے ایک دن پہلے 21 جون کو ان کا بیٹا کسی سے جھگڑا کس طرح کر سکتا ہے۔ فرزانہ کا کہنا ہے ’’ شادی کی خوشی برباد ہو گئی، میرے گھر کے دروازے ٹوٹے پڑے ہیں۔ پولس کسی بھی وقت گھر میں گھس جاتی ہے۔ ‘‘

عموماً اس طرح کے جھگڑوں میں پولس دونوں طرف کی کارروائی کرتی ہے مگر اس معاملہ میں پوری طرح یکطرفہ کارروائی ہوئی ہے ۔ اس حلقہ سے سماجوادی پارٹی کے امیدوار رہے عادل چودھری کہتے ہیں کہ صوبے میں زعفرانی حکومت ہے اس لئے اقلیتوں کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے۔

اسی جھگڑے میں زخمی ہوئے پرویز کا کہنا ہے کہ’’یہ سب مقامی بی جے پی کے رہنما ؤں کا کیا دھرا ہے ۔ انہوں نے فرقہ پرستی کی آڑ میں انصاف کو دبا دیا ہے، اب اتنے ظلم کے بعد یہاں کون رہنا چاہے گا۔ ہم گھر چھوڑ کر یہاں سے چلے جائیں گے۔ ‘‘

خاص بات یہ ہے کہ مقامی تھانہ انچارج ستیش رائے کا کہنا ہے کہ ہجرت کا سوشہ چھوڑ کر دباؤ بنایا جارہا اور ہم اس دباؤ میں نہیں آ ئیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Jul 2018, 10:36 AM