ہندوستانی سفارت کاروں کے شریکِ حیات، چمک دمک کے پیچھے ایک غیر رسمی مگر اہم کردار
’دی ادر سائیڈ آف ڈپلومیسی‘ میں ہندوستانی سفارت کاروں کے شریکِ حیات کے غیر رسمی مگر اہم کردار کو اجاگر کیا گیا ہے، جہاں وہ ملک کی عزت بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں

نئی دہلی: ہندوستانی سفارت کاروں کے شریکِ حیات کی زندگی محض تقاریب میں شرکت یا رسمی ضیافتوں کی میزبانی تک محدود نہیں بلکہ وہ ملک کی عزت و وقار کو بلند کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جے شری مشرا تریپاٹھی کی کتاب ’دی ادر سائیڈ آف ڈپلومیسی‘ میں ان کی انہی کہانیوں کو سمیٹا گیا ہے، جو عام طور پر نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔
کتاب میں ایک ایسے واقعے کا ذکر ہے جب 1965 کی جنگ کے دوران ایک ہندوستانی سفارت کار کی حاملہ اہلیہ کو ڈھاکہ میں اپنے کم سن بیٹے کے ساتھ نظر بند کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے انتہائی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خفیہ دستاویزات جلا دیں اور پاکستانی اہلکاروں سے سختی سے بات کی کہ وہ ان کے ساتھ مناسب رویہ اختیار کریں۔
سفارتی دنیا میں مغربی ممالک کے کچھ سفارت کار اپنی بیویوں کو غیر رسمی طور پر ’ڈپلومیٹک بیگیج‘ یعنی سفارتی سامان سے تشبیہ دیتے ہیں، مگر ہندوستانی سفارت کاروں کی بیویاں (اور بعض اوقات شوہر) جس ملک میں ہوتی ہیں، وہاں ہندوستان کی ثقافت، طاقت اور وقار کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
سفارت کار اکثر سرکاری دفاتر اور کانفرنسز تک محدود ہوتے ہیں، جبکہ ان کے شریکِ حیات عوامی سطح پر ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں، چاہے وہ بازار میں خریداری ہو، کھانے کی تیاری ہو یا گھر سنبھالنے کا معاملہ ہو۔
یہ کتاب 15 ہندوستانی سفارتی خاندانوں کی یادوں اور تجربات پر مشتمل ہے، جن میں دو مرد حضرات اور چند سفارت کاروں کی بیٹیاں بھی شامل ہیں۔ ان کہانیوں میں 1960 کی دہائی کے امریکہ اور سوویت یونین کے حالات، چین میں سفارت کاری اور مشہور عالمی شخصیات جیسے نیلسن منڈیلا، ہسپانوی بادشاہ جوآن کارلوس اور زمبابوے کے رابرٹ موگابے سے ملاقاتوں کے دلچسپ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔
کتاب کی تمہید میں معروف سفارت کار اور سیاست دان ششی تھرور لکھتے ہیں کہ یہ محض سفارتی خاندانوں کی نجی زندگی پر مشتمل نہیں، بلکہ ایک نیا اور منفرد زاویہ پیش کرتی ہے جو قارئین کو حیران کر دے گی۔
یہ کتاب قارئین کو برازیل کے پر سکون ماحول سے لے کر بغداد کی تناؤ بھری گلیوں تک، ویانا کی رنگا رنگ ثقافت سے لے کر واشنگٹن کے نواحی علاقوں تک اور سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا، ایتھوپیا اور زمبابوے جیسے ممالک کے سفارتی تجربات تک لے جاتی ہے۔
اس میں کچھ یادگار واقعات بھی شامل ہیں، جیسے ایتھوپیا میں ہندوستانی سفیر کے گھر میں ہونے والی ایک تقریب جہاں مہمان دیر سے پہنچے، یا بیجنگ میں پنڈت روی شنکر کے لیے ہندوستانی کھانے کا انتظام، جب کہ میزبانوں کے پاس اس کا تجربہ نہیں تھا۔
یہ کتاب اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ سفارتی زندگی صرف چمک دمک، ضیافتوں اور اعلیٰ شخصیات سے ملاقاتوں تک محدود نہیں، بلکہ اس میں محنت، صبر، قربانی اور ہر حال میں خود کو ڈھالنے کی صلاحیت کا اہم دخل ہوتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔