جیلوں میں زیر سماعت قیدیوں کی تعداد سزایافتگان سے 3 گنا زیادہ، عدالتی پھٹکار کے بعد بھی نہیں بدلے حالات!

سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے اتر پردیش کی حکومت کو اس بات پر پھٹکار لگائی تھی کہ عدالت کی سابقہ ہدایات کے باوجود 10 سال سے زائد عرصے سے جیل میں قید زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے

آئی اے این ایس
آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

لکھنؤ: اتر پردیش کی جیلوں میں زیر سماعت ملزمان (انڈر ٹرائلز) کی تعداد ان قیدیوں کی نسبت 3 گنا زیادہ ہے، جنہیں قصوروار قرار دیا جا چکا ہے۔ اس حقیقت سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ جیلوں میں اتنی بھیڑ کیوں ہے! محکمہ جیل خانہ جات کی رپورٹ کے مطابق 31 مارچ 2022 تک ریاست بھر کی 64 جیلوں میں کل 112480 قیدی بند تھے اور ان میں سے 85181 زیر سماعت تھے، جن کی تعداد سزا یافتہ قیدیوں (27299) سے تین گنا زیادہ تھی۔

کل زیر سماعت قیدیوں میں سے 78152 مرد، 3291 خواتین، 3281 نابالغ اور 305 غیر ملکی تھے۔ اس کے علاوہ 400 بچے (186 لڑکے اور 214 لڑکیاں) بھی زیر سماعت خواتین قیدیوں کے ساتھ جیلوں میں مقیم تھے۔ زیر سماعت قیدی جیل کی کل آبادی کا تقریباً 76 فیصد ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 85000 زیر سماعت قیدیوں میں سے تقریباً 850 بغیر کسی سزا کے 10 سال سے زیادہ عرصے سے سلاخوں کے پیچھے وقت گزار رہے ہیں!


سپریم کورٹ نے گزشتہ ہفتے اتر پردیش کی حکومت کو اس بات پر پھٹکار لگائی تھی کہ عدالت کی سابقہ ہدایات کے باوجود 10 سال سے زائد عرصے سے جیل میں قید زیر سماعت قیدیوں کی رہائی کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے۔ سپریم کورٹ نے ضمانت کی درخواستوں پر جلد فیصلہ نہ لینے پر الہ آباد ہائی کورٹ کی بھی سرزنش کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک کی عدلیہ پر بھی زور دیا ہے کہ وہ قانونی امداد کے منتظر جیلوں میں زیر سماعت قیدیوں کی رہائی میں تیزی لائے۔

جیل کی آبادی پر 1901 کے بعد سے ایک اور شماریاتی رپورٹ سے معلوم چلتا ہے کہ زیر سماعت قیدیوں کی تعداد ہمیشہ سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد سے کم رہتی تھی۔ 1909 میں 27527 سزایافتگان کے مقابلہ صرف 1645 زیر سماعت قیدی تھے لیکن آزادی کے بعد یہ فرق کم ہونا شروع ہوا اور 1948 میں زیر سماعت قیدیوں کی تعداد بڑھ کر 11746 ہو گئی جبکہ سزایافتہ مجرموں کی تعداد 14609 تھی۔


اس کے بعد 1972 میں زیر سماعتوں کی آبادی (19061) پہلی بار مجرموں (18787) سے تجاوز کر گئی، اور تب سے یہ فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ ہائی کورٹ کے ایک وکیل نے کہا، ’’اس سے پہلے زیر سماعت مقدمات کی تعداد کم تھی، خاص طور پر برطانوی دور میں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت انصاف فوری ہوا کرتا تھا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔