موجودہ وقت ہندوستانی جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے سب سے سنگین لمحہ: اپوروانند

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے زیر اہتمام راجدھانی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں ’ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا لائحہ عمل‘ عنوان سے دو روزہ کل ہند کانفرنس کا انعقاد۔

مسلم مجلس مشاورت کی جانب سے منعقد تقریب کا منظر
مسلم مجلس مشاورت کی جانب سے منعقد تقریب کا منظر
user

عمران خان

’’موجودہ وقت ہندوستانی جمہوریت اور سیکولرزم کے لیے سب سے سنگین لمحہ ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں تین رکنی بنچ اس معاملہ پر غور کر رہی ہے کہ گیان واپی مسجد میں جو حالات پیدا کر دیے گئے ہیں ان پر آگے کیا کرنا ہے۔ سپریم کورٹ میں جب مسجد کمیٹی کی جانب سے عرضی لگائی گئی، جسے فوری سننے سے منع کر دیا گیا اور سروے پورا کرنے پر زور دیا گیا اور یہ ہنگامہ کیا گیا کہ مسجد میں کیا پایا گیا۔ بابری مسجد میں تو مورتی چوری چوری رکھی گئی تھی، اور مسجد اس کے حوالہ کر دی گئی جن کے عمل کو جرم قرار دیا گیا۔ مگر آج دن دہاڑے عدالت کے رہتے ہوئے جمود کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ قطب مینار اور دہلی کی جامع مسجد پر بھی دعوی کیا جا رہا ہے۔ اب ملک کی کسی بھی مسجد پر دعوی کرنے کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔‘‘ یہ بیان دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے زیر اہتمام منعقد دو روزہ تقریب کے پہلے دن اپنے خطاب میں دیا۔

’ملک کے موجودہ حالات اور ہمارا لائحہ عمل‘ کے عنوان سے راجدھانی دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر میں منعقد اس کل ہند کانفرنس میں پروفیسر اپوروانند نے ملک کے موجودہ حالات پر انتہائی فکر کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’’مدھیہ پردیش کے نیمچ میں درگاہ میں مورتی رکھنے پر تنازعہ ہوا۔ ملک میں جو مذہبی جلوس نکالے جا رہے ہیں ان میں اپنے مذہب کی جے جے کار کے بجائے مسلمانوں کو دھمکی دی جا رہی ہے۔ یہ جنگ صرف ہندوتوا کے نظریہ کو ماننے والے لوگوں نے ہی نہیں چھیڑی ہے بلکہ ملک کے کئی سرکاری ادارے بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’حال ہی میں اندور میں مجھ سے سوال کیا کہ اگر ہمارے اوپر تلوارا اٹھائی جائے تو کیا ہم ہاتھ بھی نہ اٹھائیں۔ کیا آپ اسے برابر کا جرم کہیں گے۔ مسلمانوں کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تین طلاق قانون کے حوالہ سے دعوی کیا گیا کہ یہ خواتین کے حق میں ہے لیکن یہ قانون مسلمان مردوں کی بےعزتی کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ اگر کوئی مسلمان اپنی بیوی کو بغیر قانونی عمل کے چھوڑتا ہے تو اسے سزا دی جاتی ہے لیکن کیا کسی غیر مسلم کو اسی جرم پر سزا دی جاتی ہے۔ اسی طرح کشمیر سے دفعہ 370 بھی اسی نیت سے ہٹائی گئی ہے۔ ایک کے بعد ایک ایسے قانون لائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح گئو کشی قانون کا اثر آپ دیکھ رہے ہیں۔ آسام کی ایک پرنسپل کو ٹفن میں بیف لانے کے الزام پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔ آج ہندوستان میں کوئی احمق ہی مسلمان ہوگا جو بیف لائے اور دوسروں کو کھلائے۔‘‘


بہوجن سماج پارٹی رکن پارلیمنٹ کنور دانش نے اس موقع پر کہا کہ ’’جس ہندوستان کا خواب آزادی کے وقت ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا اس نظریہ میں یقین کرنے والے تمام مذاہب کے لوگ آج پریشان ہیں۔ ایک ایک کر کے ہندوستان کے تمام اداوں کے اندر ایسے لوگوں کی دراندازی ہو چکی ہے جو طاقتیں اس ملک میں تخریب کاری پھیلانے کا مقصد رکھتی ہیں۔ انگریزوں کی دلالی کرنے والے خود کو قوم پرست کہتے ہیں۔ وہ ملک کبھی ترقی نہیں کرسکتے جو اپنی تاریخ کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بدقسمتی اس بات کی ہے کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس سے اس ملک کا ایک بڑا طبقہ مزے لے رہا ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’موجودہ ماحول میں ہمیں صرف تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ ملک کے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے جذباتی بیان دینے سے اجتناب کریں اور ٹی وی چینلوں کو چارہ دینے سے بچیں۔ آج ملک کی جیلوں میں 20 فیصد سے زیادہ مسلم نوجوان قید ہیں اور 23 فیصد سے زیادہ پسماندہ طبقات کے لوگ جیلوں میں قید ہیں۔ یو اے پی اے سب سے زیادہ ہمارے طبقہ کے لوگوں پر ہی لگایا گیا۔ امید ہے کہ مستقبل میں یو اے پی اے جیسے وہ قانون جن کا غلط استعمال ہو رہا ہے انہیں ختم کیا جائے گا۔‘‘

اس موقع پر مرکزی جمعیت اہلحدیث کے صدر امام اصغر علی مہدی سلفی نے کہا کہ ’’معاملہ موجودہ حالات کا نہیں بلکہ مستقبل کو بچانے کا ہے۔ ہمیں متحد ہونے کے ضرورت ہے اور ایک ساتھ سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا جس میں سبھی مکتب فکر کے لوگ شامل ہوں۔ ‘‘ امیر جماعت اسلامی سعادت اللہ حسینی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دو کام پر خصوصی توجہ دینے کی تلقین کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’سب سے پہلا کام یہ ہے کہ اس ملت کے اندر حوصلہ پیدا کیا جائے۔ دوسرا کام ہے استقامت۔ ہمیں اپنے ایمان پر استقامت سے کام لینا ہوگا۔ ایک طاقتور مہم ملک کے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو ہمیں اس مشکل حالات سے باہر نکال سکتا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’مجلس مشاورت کا قیام ایسے ہی حالات میں عمل میں آیا تھا۔ اس لئے ضروری ہے کی پھر سے مشاورت ایک قائدانہ کردار ادا کرے۔‘‘ مشہور عالم دین مولانا توقیر رضا نے اپنا اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’کرنے کا کام یہ ہے کہ کیمرے اور مائک ہٹا کر بات کی جائے۔ ہمیں اپنی کمزوریوں کو قبول کرنا ہوگا اور پھر متحد ہو کر سڑک پر اترنے کی ضرورت ہے۔ لڑائی آپ کی ہے اس لئے آگے بھی آپ کو آنا ہوگا۔ مسلمانوں کو جیل بھرو تحریک شروع کرنی ہوگی۔‘‘


آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے اس کل ہند کانفرنس میں خطاب کے دوران مسلمانوں کو ملک کا وفادار اور ذمہ دار شہری ٹھہرایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’ہم ملک کے وفادار تھے اور رہیں گے، اور اس ملک کو بچانے کے لیے ہم سب سے آگے رہیں گے۔ اس ملک کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں بہت دنوں تک نفرت قائم نہیں رہ سکتی ہے۔ ہمیں اپنے رویے کو بدلنا ہوگا۔ اس ملک کا مستقبل اور مسلمانوں کا مستقبل ایک ہی ہے۔ اپنے اندر مایوسیوں کو ہم داخل ہونے نہیں دیں گے۔‘‘

اس تقریب کا افتتاح آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے نائب صدر ملک محتشم کے خطاب سے ہوا۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’آج مسلمانوں کو کھلے عام دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ طرح طرح کے الزام عائد کر کے ان کے مکان بلڈوزر کے ذریعے منہدم کیے جا رہے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کے خلاف سی اے اے جیسے متعصب قانون کی مخالفت پر یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی۔ جرأت مند اور بہادر صحافیوں پر قانونی کارروائی کی گئی۔ مختلف اداروں میں خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔‘‘ انھوں نے ساتھ ہی کہا ’’امت کے نوجوان فطری صلاحیتوں کے حامل ہیں، ان کا صحیح استعمال اور انھیں فروغ دینا تمام اداروں اور دانشمندوں کی ذمہ داری ہے۔ تاریخ میں بھی مسلمان اس طرح کے حالات کا مقابلہ کرتے رہے ہیں اور کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب روایتی قسم کی تقریروں کے بجائے ٹھوس لائحہ عمل پر بات چیت کریں۔‘‘

(اِن پٹ: نوازش عالم)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 20 May 2022, 7:29 PM