’خانقاہوں نے اردو سمیت مختلف زبانوں کو فروغ دینے کی ہمیشہ ہر ممکن کوشش کی ہے‘

خانقاہوں نے اردو سمیت مختلف زبانوں کو فروغ دینے کی ہمیشہ ہر ممکن کوشش کی ہے اور خانقاہیں اردو کی خدمت کے حوالہ سے ہمیشہ یاد کی جائیں گی

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

پٹنہ: خانقاہوں نے اردو سمیت مختلف زبانوں کو فروغ دینے کی ہمیشہ ہر ممکن کوشش کی ہے اور خانقاہیں اردو کی خدمت کے حوالہ سے ہمیشہ یاد کی جائیں گی۔ یہ بات ممتاز خطیب اور خانقاہ منعمیہ کے سجادہ نشیں ڈاکٹر سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی نے سید شاہ حامد حسین حامد عظیم آبادی کی شخصیت اور شاعری کے موضوع پر ایک مذاکرہ کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے مشاعرہ کی تاریخ خانقاہوں سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ طرحی مشاعرہ 100 سال قبل 1919 میں اسی خانقاہ میں صاحب سجادہ حضرت سید شاہ حامد حسین حامد عظیم آبادی کی سرپرستی میں منعقد کیے گئے دو روزہ مشاعرہ کی یاد میں منعقد کیا گیا جو مغرب کی نماز کے بعد سے تقریبا دو بجے رات تک چلا۔ جس میں کلکتہ، جمشید پور، گریڈی، بھاگلپور، مظفر پور، گیا، پٹنہ سیٹی، پھلواری شریف، دانا پور، آسنسول، ہزاری باغ اور ویشالی سے تشریف لائے ایک سو سے زیادہ شعرائے کرام نے شرکت کی اور اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا۔


بزم دوستاں کی طرف سے منعقدہ تقریب میں اپنی صدارتی تقریر میں ڈاکٹر شمیم منعمی نے کہا کہ یہ خانقاہ اردو کی خدمت کے حوالہ سے ہمیشہ یاد کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ خانقاہوں نے شعرو سخن اور لوح و قلم کی ہمیشہ آبیارکی ہے۔خانقاہوں کو آج اپنے منصب اور ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا۔ خانقاہ ایک ایسے ادارہ کے نام جو نسل مذہب،نسب کچھ نہیں جانتی اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ خانقاہیں کل بھی صحیح تھی اور آج بھی صحیح ہیں۔

انہوں نے مشاعرہ کی افادیت کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ مشاعرہ سے وقت کی بربادی نہیں ہوتی،زبان کو زندہ رکھنے اور مضبوط بنانے کے لیے مشاعرہ کا وقتا فوقتا انعقاد ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ طرحی مشاعرہ شاعری کا امتحان ہے۔طرح میں شعر کہنا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ خانقاہ دیوان شاہ ارزاں بہت ہی قدیم پرانی خانقاہ ہے اس کی اینٹ اینٹ سے پیغام ملتا ہے۔ آج کے اس مذاکرہ اور مشاعرہ میں اس روایت کو دہرایا جا رہا ہے جو حضرت سید شاہ حامد حسین حامد عظیم آبادی نے قائم کیا تھا۔


مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے اردو ڈائرکوریٹ کے فعال ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی نے اس تاریخ ساز مذاکرہ اور طرحی مشاعرہ کے انعقاد کے لیے بزم دوستاں کو مبارک باد دی اور اعلان کیا کہ اس تاریخی اور شاندار طرحی مشاعرہ میں جو کلام پڑھے گئے ہیں اسے اگر بزم دوستاں کتابی شکل میں ترتیب دے دے تو اردو ڈائرکٹوریٹ اسے شائع کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ اردو کے فروغ میں مشاعرہ اہم کردار ادا کرتا ہے اس سے زبان کے فروغ کے لیے ماحول اور فضابنتی ہے۔ صوفیائے کرام نے خانقاہوں کے توست سے جہاں دین کی ترویج و اشاعت کی وہیں اردو کو بھی فروغ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان خانقاہوں کے بزرگوں کی دین ہے کہ ہندوستان میں اردو پھل پھول رہی ہے۔ امتیاز احمد کریمی نے خانقاہوں سے اپیل کی کہ وہ تعلیم کے فروغ کے طرف بھی توجہ دیں اور اپنے وجود کا احساس دلائیں۔

مذاکرہ کی نظامت کرتے ہوئے سینیر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آج سے تقریبا سو سال پہلے بارہ تیرہ اپریل 1919 کو ایک تاریخ ساز مشاعرہ ہوا تھا۔ یہ وہ مشاعرہ تھا جس کی صدارت اور سرپرستی حضرت حامد حسین حامد عظیم آبادی نے کی تھی جو حضرت دیوان شاہ ارزاں (بانی خانقاہ) کے بعد فہرست سجادگان میں دسویں سجادہ نشیں تھے۔حضرت کی پیدائش 1882 میں محلہ درگاہ شاہ ارزاں میں ہوئی اور آپ کا انتقال ۵۸ سال کی عمر میں 1967میں ہوا اور تدفین احاطہ درگاہ شاہ ارزاں میں عمل میں آئی۔


ڈاکٹر ریحان غنی نے بزم دوستاں کی کارگزاریوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا اور کہا کہ بزم دوستاں ایک ادبی مثلث ہے جس کے تین زاویے ہیں جو معین کوثر، سید ضیا الرحمن ضیا اور افتخار عاکف۔ یہ تینوں اردو کے ایسے مجاہدین ہیں جو شعرو شاعری کے حوالہ سے ایسے ایسے پروگرام اور ایسی ایسی نشستیں منعقد کرتے رہتے ہیں جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ آج کی یہ باوقار مجلس اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ اس موقع پر طرحی مشاعرہ کا دو دور ہوا۔ دوسرے اور تیسرے دور کی نظامت ڈاکٹر احمد بدر نے کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔