’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘

 اپوزیشن ارکان کو اظہار خیال کا موقع دیئے بغیر انہیں روک دینا در اصل ان کے حلقہ جات کے عوام کی رائے کو پامال کرنے کے مترادف ہے لیکن برسر اقتدار اکثریت کے زعم میں کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں۔

مانسون اجلاس / ویڈیو گریب
مانسون اجلاس / ویڈیو گریب
user

نواب علی اختر

مودی حکومت کی ہٹ دھری کی وجہ سے آخرکار پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس بھی جمعہ کو ہنگامہ، بائیکاٹ اور التوا کے ماحول میں ختم ہوا۔ آخری دن بھی محض نام کا کام کاج ہوا۔ اس پورے اجلاس میں کئی بل پاس ہوئے لیکن کسی پر کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہوا۔ استثنا دہلی سروسز بل تھا، جس پر دونوں فریقوں کے درمیان طویل بحث ہوئی۔ اپوزیشن کی جانب سے اہم اعتراضات کیے گئے تو حکمران جماعت کی جانب سے جوابات دیئے گئے جو اپوزیشن کو مطمئن نہیں کرسکے۔ اس ایک بحث کو چھوڑ کر منی پور پر بحث سے ’بھاگنے‘ کی حکومت کی کوشش نے پورا اجلاس ضائع کر دیا حالانکہ چوطرفہ دباو کے بعد حکومت منی پور پر بحث کرانے کے لیے تیار ہوئی مگر اپوزیشن کے الزامات کا جواب دینے میں حکمران پوری طرح ناکام رہے۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بدھ کے روز اپوزیشن کی طرف سے لائی گئی تحریک عدم اعتماد کے دوران بحث کا آغاز کیا۔ ان کی تقریر کا ایک دن پہلے سے انتظار کیا جا رہا تھا کیونکہ منگل کو کانگریس کی طرف سے ٹوئٹ کر کے بتایا گیا تھا کہ راہل گاندھی تحریک عدم اعتماد پر اپوزیشن کی طرف سے پہلے اسپیکر ہوں گے۔ حالانکہ آخری لمحات میں پھر سے پلان تبدیل کیا گیا گورو گوگوئی سے بحث شروع کی گئی، جس پر حکمراں پارٹی اپوزیشن کی حکمت عملی سے دم بخود رہ گئی۔ اس دوران حکمراں پارٹی کے اراکین نے اپنی کھسیاہٹ مٹانے کے لیے ایوان کے اندر سوالات اٹھائے لیکن ہر پارٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جب چاہے اپنی حکمت عملی بدل سکتی ہے۔ اس لیے حکمراں اراکین کے اعتراضات کو اہمیت نہیں دی جا سکتی۔


 بحث کے دوران کانگریس لیڈرراہل گاندھی نے اپنی تقریر میں جس قسم کے تند و تیز الفاظ کا استعمال کیا، موجودہ ماحول میں اس کی سخت ضرورت تھی کیونکہ حکمراں طبقہ منی پورمیں جاری آگ وخون پر خاموش تماشائی بنا رہا۔ منی پور میں تین ماہ سے زیادہ عرصے سے حالات بہت خراب ہیں۔ وہاں ہونے والے واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں لیکن حکومت کے رویئے سے ایسا لگ رہا ہے کہ منی پور اب ہندوستان کا حصہ نہیں رہا، ریاست اب بھی یونٹ نہیں ہے۔ حکمرانوں کی بے حسی نے ریاست تباہ ہونے دی مگرایوان اقتدار میں ایسا ماحول دیکھا گیا جیسے منی پور میں انسان نہیں رہتے ہیں۔ اپوزیشن بالخصوص کانگریس نے اسی وجہ سے حکمراں جماعت کو ملک دشمن کہہ کر اسے کمبھ کرن کی نیند سے اٹھانے کی کوشش کی۔

 لوک سبھا میں راہل گاندھی کی تقریر نے بہت سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کی اور انہوں نے اپنی تلخ اور جارحانہ تقریر سے حکومت پر اپوزیشن کے حملے کو دھار دی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ  اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد لانے کا مقصد وزیر اعظم مودی کو منی پور پر ایوان میں بیان دینے پر مجبور کرنا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنی تقریر تقریباً پوری طرح منی پور پر مرکوز کرکے ثابت کر دیا کہ اپوزیشن حکومت کے لیے بحث کو موڑنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں چھوڑنا چاہتی۔ راہل گاندھی نے اس میں’ آئیڈیا آف انڈیا‘ کا مسئلہ بھی شامل کیا، جو مودی حکومت پر ان کا بنیادی الزام رہا ہے کہ یہ حکومت’ آئیڈیا آف انڈیا‘ پر حملہ کر رہی ہے، ہندوستان کے تنوع کو برقرار رکھنے میں اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔


راہل گاندھی کے فوراً بعد مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی بولنے کے لیے کھڑی ہوئیں، انہوں نے منی پور جیسے ضروری موضوع پر جاری بحث کا رخ موڑنے کی کوشش کرتے ہوئے کشمیر اور دیگر ریاستوں میں تشدد کا مسئلہ اٹھایا جس سے صاف ہوگیا کہ حکومت کے پاس منی پور پر کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ اپوزیشن نے یہاں بھی حکومت کے ارادوں کو ناکام بناتے ہوئے بحث کو منی پور پر مرکوز رکھا۔ اس بحث کے دوران راہل گاندھی کے’فلائنگ کس‘ کو حکمراں پارٹی کے اراکین نے موصوع بحث بنانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے کیونکہ بی جے پی اوراس کی ہم خیال پارٹیوں کو چھوڑ کر تقریباً پورا ایوان ملک کے موجودہ سنگین حالات بالخصوص منی پورمیں حکومت کی ناکامی کی وجوہات جاننا چاہتا تھا۔

اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد، جو اس اجلاس کا سب سے اہم حصہ بنی، اس میں حکمراں جماعت کے پاس بتانے کو کچھ نہیں تھا اسی وجہ سے وہ ہمیشہ کی طرح دیگر موضوعات کو اٹھا کر اپنی کھال بچانے کی کوشش کرتی نظرآئی۔ حکومت چاہتی تو اپوزیشن کے سوالوں کے جواب دے کر منی پور پر صحت مند، بامعنی بحث کے لیے کوئی پائیدار حل تلاش کرسکتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن کی مانگ پر حکومت شروع سے آخر تک دعویٰ کرتی رہی کہ وہ منی پور کی صورت حال پر بحث کرنا چاہتی ہے۔ مگر یہ سمجھنا مشکل ہے کہ یہ کس قسم کی خواہش تھی کہ مسلسل دعویٰ کے بعد بھی حکومت کسی حل پر نہیں پہنچ سکی جس کی وجہ سے ایوان کے اندر منی پور پر بامعنی بحث ہوتی اور پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس یادگار بن جاتا۔

تاہم اسی اجلاس میں کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کی پارلیمنٹ کی رکنیت کی بحالی بھی دیکھی گئی، جو گجرات کی ایک عدالت نے ہتک عزت کے ایک مقدمے میں دو سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد معطل ہوگئی تھی۔ آخر کار سپریم کورٹ سے راحت ملنے کے بعد تحریک عدم اعتماد پر بحث شروع ہونے سے ایک دن پہلے راہل کی رکنیت بحال کر دی گئی اور انہوں نے نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اس بحث میں حصہ لیا۔ راہل کی تقریر نےمنی پورکی تباہی پرحکومت کو جگانے کا کام کیا ہے مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت تنگ نظری اور ووٹ بینک کی سیاست سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی حفاظت کے لیے کیا کرتی ہے  کہیں ایسا نہ ہوکہ ’من کی بات‘ سننے والے عام لوگوں کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیں۔


مودی حکومت میں گزشتہ چند اجلاسوں کی طرح پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں بھی ایوان کے اندر سے زیادہ ایوان کے باہرنصب گاندھی مجسمہ کے قریب ہی اپوزیشن کے دھرنے اور مظاہرے کا گواہ بنا۔ حکومت کو اس کی ناکامیاں بتانے والے اپوزیشن ممبران پارلیمنٹ کو سزا کے طور پر کارروائی سے باہرکرنے یا معطل کرنے کے معاملے اس بار بھی کثرت سے سامنے آئے۔ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کو اگلے اجلاس کے لیے معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جب کہ راگھو چڈھا کے خلاف جعلسازی کے الزامات لگائے گئے تو لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری کو ان کی تلخ تقریر کی وجہ سے معطل کر دیا گیا۔ مجموعی طور پر پارلیمنٹ کا یہ اجلاس بھی ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے مستقبل کے بارے میں کوئی بہتر اشارہ نہیں دے سکا۔

مانسون اجلاس سے امید کی جا رہی تھی منی پورکے ساتھ ساتھ ملک میں مہنگائی، بے روزگاری، نفرت انگیزی پرقابو پانے کے لیے اپوزیشن کے صلاح مشورے سے حکومت کوئی منصوبہ بنائے گی مگر حالیہ اختتام پذیر اجلاس میں حکومت کے خلاف بولنے والے اپوزیشن اراکین کی معطلی جیسی حکومت کی کارروائی سے ایک بار پھر ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کا ہی پیغام دیا گیا ہے ۔ اس طرح ملک کی ذمہ دار اپوزیشن جماعتوں اور ان کے ارکان و قائدین کو ایوان میں اپنی رائے پیش کرنے سے روکا جا رہا ہے ۔ اپوزیشن ارکان کو اظہار خیال کا موقع دیئے بغیر انہیں روک دینا در اصل ان کے حلقہ جات کے عوام کی رائے کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن برسر اقتدار جماعت کے ارکان اکثریت کے زعم میں کسی کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔