بابری مسجد کی زمین جبراً چھینی گئی، مسلم فریق کی دلیل

ایک گواہ کے حوالہ سے دھون نے کہا کہ اس نے 14 سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی، بعد میں آر ایس ایس اور وی ایچ پی نے اس کو اعزاز بھی دیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: ایودھیا کے بابری مسجد معاملہ کی سپریم کورٹ میں 20 ویں دن کی سماعت کے دوران مسلم فریق کی طرف سے پیروی کرنے والے وکیل راجیو دھون نے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ سال 1734 سے وجود کا دعوہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کہہ سکتے ہیں کہ نرموہی اکھاڑہ 1885 میں باہری آنگن میں تھا اور وہ وہاں قابض رہا ہے۔ راجیو دھون نے کہا کہ رام چبوترا باہری آنگن میں ہے جسے رام جنم استھان کے طور پر جانا جاتا ہے اور مسجد کو متنازعہ زمین کہا جاتا ہے۔

راجیو دھون نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کئی گواہان کے بیانوں کو متاثر کیا گیا ہے۔ ایک گواہ کے حوالہ سے دھون نے کہا کہ اس نے 14 سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی، بعد میں آر ایس ایس اور وی ایچ پی نے اس کو اعزاز بھی دیا۔ ایک دوسرے گواہ کے بارے میں دھون نے کہا کہ اس نے 200 سے زیادہ معاملات میں گواہی دی ہے اور اس کا یقین ہے کہ ایک جھوٹ بولنے میں کوئی حرض نہیں ہے۔ راجیو دھون نے اپنی دلیل میں صاف طور پر کہا کہ بابری مسجد کی زمین جبراً چھینی گئی ہے۔

چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے مسلم فریق کے سینئر وکیل راجیو دھون سے پوچھا کہ کیا نرموہی اکھاڑے نے ان کے اعتراضات کے باوجود رام للا کی خدمت کا حق قائم کر رکھا تھا۔ اس پر ڈاکٹر دھون نے جواب دیا کہ ’’مجھے اس کے بارے میں پتہ لگانا ہوگا۔ میں اس کے بارے میں عدالت کو اطلاع دوں گا، مہربانی کرکے مجھے اس کے لئے کچھ دنوں کا وقت دیں۔‘‘

سپریم کورٹ اپنے سامنے الہ آباد ہائی کورٹ کے 2010 کے اس فیصلے کے خلاف دائر کئی عرضیوں کی سماعت کر رہا ہے جس کے تحت اجودھیا کی متنازعہ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹردھون نے معاملے کی سماعت کے 20 ویں دن عدالت کے سامنے دلیل دی کہ بھگوان رام کی مورتی کو آنگن میں رکھا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ باہری آنگن پر نرموہی اکھاڑہ کا خصوصی طور سے قبضہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کے عقیدہ کی وجہ سے یہ مسئلہ عدالت میں پہنچا ہے۔ یہ معاملہ بہت حساس ہے اور ہمیں پتہ ہے کہ یہ عدالت جو بھی فیصلہ سنائے گی وہ متعلق فریقوں کے لئے بہتر ہوگا۔ پانچ رکنی آئینی بنچ میں جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبد النظیر بھی رکن ہیں۔

واضح رہے کہ اس تنازعہ کو ثالث کے ذریعہ حل کرنے کی بھی کوششیں بھی ناکام رہنے کے بعد سپریم کورٹ میں گزشتہ چھ اگست سے روز مرہ کی بنیاد پر اس معاملے کی سماعت ہورہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Sep 2019, 7:10 PM