’سیاسی اسلام‘ کی عظمت دنیا پر ظاہر... نواب علی اختر

حد تو یہ ہوگئی ہے کہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دنیائے اسلام کا قبلہ کہے جانے والے کئی بڑے اسلامی ممالک کھلے عام غیراسلامی امور انجام دے کر فخر محسوس کر رہے ہیں۔

سید ابراہیم رئیسی، تصویر آئی اے این ایس
سید ابراہیم رئیسی، تصویر آئی اے این ایس
user

نواب علی اختر

موجودہ وقت میں دنیا کا مسلمان جس کشمکش میں مبتلا ہے وہ حیران کرنے والا ہی نہیں بلکہ انتہائی پریشان کن بھی ہے، کیونکہ تشدد اور خلفشار بیشتر اسلامی ممالک کا مقدر بن چکا ہے۔ بادی النظر میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہی سامنے آرہی ہے کہ دنیائے اسلام کی ٹھیکیداری کا دعویٰ کرنے والے اسلامی ممالک دشمنان اسلام کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ جس کے بعد ایسے ممالک کو نہ تو اسلام کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی اسلام کے ماننے والوں کا کوئی خیال رہ گیا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دنیائے اسلام کا قبلہ کہے جانے والے کئی بڑے اسلامی ممالک کھلے عام غیراسلامی امور انجام دے کر فخرمحسوس کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کی چکا چوند میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ان میں اسلامی مقدسات کا پاس ولحاظ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔

ان حالات میں اگر کسی اسلامی ملک کا سربراہ عالمی طاقتوں کے ساتھ جاری اہم گفت وشنید کو چھوڑ کر معبود حقیقی سے بات کرنے کے لیے جائے نماز پر پہنچ جائے تو یہ نماز اپنی نوعیت کی منفرد عبادت کہی جائے گی۔ ہم بات کر رہے ہیں اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کی، جن کا حالیہ دورہ روس اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہایت اہم دورہ تھا جس میں علاقائی اور بین الاقوامی حالات، ایٹمی معاہدے کے بارے میں جاری ویانا مذاکرات، افغانستان، خلیج فارس، عرب دنیا، قفقاز، یوکرین کے مسائل کے علاوہ دو طرفہ دلچسپی کے مسائل بھی زیر بحث آئے۔ فوجی اور انٹیلی جنس تعاون، فوجی تعاون، مشترکہ جنگی مشقوں، دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ، امریکی پابندیوں کو ناکام بنانے وغیرہ، جیسے اہم مسائل پر بات چیت ہوئی۔


اس دوران ایک وقت ایسا بھی آیا جب نماز ظہر کے لیے ہر مسلمان کو معبود کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے عابد ہونے کا فرض ادا کرنا تھا، یہی عمل انجام دینے کے لیے ایرانی صدر رئیسی مصلائے عبادت پر پہنچ گئے۔ بہت سے روسی اور بین الاقوامی ذرائع نے بھی اور مسلم دنیا کے صارفین اور مبصرین نے بھی روس کے کریملن ہاؤس (صدارتی محل) میں ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کی نماز کو سب سے زیادہ اہم سمجھا اور اس کے بارے میں اپنے اپنے تبصرے لکھے۔ کچھ جملے البتہ تبصرے سے عاری تھے لیکن بجائے خود اہم تھے۔ غیرملکی ذرائع ابلاغ سے پتہ چلا کہ مذاکرات پورے جوبن پر تھے جب وقت اذان ہوا اور صدر رئیسی نے دنیا کی دوسری بڑی طاقت کے صدر کو بتا دیا کہ اب اللہ سے بات کرنے کا وقت ہے اور اٹھ کر کریملن ہاؤس میں نماز ادا کرنے کے لیے چلے گئے۔

صدر رئیسی نے اپنے اس عمل سے واضح کیا کہ اہم صرف اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں، سب سے بڑا صرف اللہ ہے، لائق عبادت صرف اللہ ہے۔ رئیسی نے کریملن ہاؤس میں صدر ویلا دیمیر پوتن کے ساتھ انتہائی اہم مذاکرات کے بیچ، اللہ کی عبادت کے لیے اٹھ کر دنیا پر ظاہرکر دیا کہ ایران کی اصولی پالیسی ’لا شرقیہ لا غربیہ‘ بدستور قائم و دائم ہے۔ رئیسی نے کریملن ہاؤس میں نماز ادا کرکے ایک اعتقادی اور سیاسی کردار ادا کیا ہے۔ اس عمل سے اسلام کی لاج رکھ لی ہے، مسلمانوں کو عزت دی ہے، چنانچہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اس عظیم اقدام کو نظرانداز نہ کریں اور اس عزتمندانہ کردار کی تائید و ترویج کریں۔ گوکہ صدر رئیسی کے اس عمل کا کوئی جواب نہیں ہے لیکن یہ در حقیقت ایک تاریخی نماز کی یاد دہانی بھی ہے۔


چند سال قبل جب ایرانی فوج کے جنرل قاسم سلیمانی (امریکہ حملے میں شہید) نے صدر پوتن کے ساتھ تاریخی ملاقات کے بیچ، وقت نکال کر اسی کریملن ہاؤس میں نماز ادا کی تھی۔ وہ پہلی نماز تھی اور یہ دوسری، لیکن وہ ایک خفیہ ملاقات تھی اور یہ اعلانیہ بات چیت تھی۔ وہ ملاقات ایک جنرل نے جنگی تعاون کے سلسلے میں کی تھی، لیکن یہ ملاقات اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے کی ہے، چنانچہ اس نماز کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور یہ بالکل ایک بجا امر ہے۔ کریملن ہاؤس کم از 70 برس تک کمیونزم، الحاد، خدا دشمنی اور دین کی نفی کا مرکزی ہیڈکوارٹر رہا ہے۔ کمیونزم اور اللہ کے انکار کے سابق مرکز کریملن میں نماز، خدا رحمت نازل کرے پہلے اور دوسرے نماز گزار ( سلیمانی اور رئیسی) پر، کسی وقت اسی کریملن میں ایران پر قبضے کی سازشیں ہوا کرتی تھیں۔

یاد رہے کہ قائد انقلاب اسلامی امام خمینی نے تین عشرے قبل سابق سوویت اتحاد کے سربراہ کے نام خط لکھ کر کمیونزم کے خاتمے کی پیشن گوئی کی تھی جبکہ اس زمانے میں کریملن کے رہنے والے سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کسی دن دنیا کے سب سے بڑے دینی نظریئے کا نمائندہ یہاں نماز پڑھے گا اور ’سیاسی اسلام‘ کی عظمت دنیا پر ظاہر کرے گا۔ قابل غور بات ہے کہ صدر پوتن نے جنرل سلیمانی اور صدر رئیسی کی نماز پر اعتراض نہیں کیا تھا اور انھوں نے ان کی نماز مکمل ہونے تک انتظار کیا تھا۔ جو نماز جنرل سلیمانی نے کریملن میں ادا کی تھی وہ آج ایک عملی نمونے کے طور پر، ایک کتاب کی صورت میں لاطینی امریکی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ گویا کہ شاید یہ واقعہ ہمارے لیے معمولی سا واقعہ ہو مگر دوسری اقوام کے لئے’انسان ساز اور سبق آموز‘ ہے۔ مختلف ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ روسی مسلمانوں کی مفتیوں کی کونسل کے سربراہ نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے اس واقعے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کریملن میں آپ کی نماز ایک معیار اور بہت بڑا نمونہ تھی۔ صدر پوتن اور مفتیوں کی کونسل کے سربراہ نے صدر رئیسی سے الگ الگ کہا کہ ہمارا سلام رہبر انقلاب اسلامی کو پہنچا دیجئے۔ ہم نے سوشلزم اور کمیونزم کے مرکز میں ایک (جنرل سلیمانی) کی نماز کے بارے میں سنا تھا مگر اب ہم نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔


نفسا نفسی میں مبتلا عالم اسلام کو سلیمانی اور رئیسی کے عمل نے واضح پیغام دیا ہے کہ دنیائے فانی میں کسی کو بھی اپنا وقتی قائد اور رہبر تو بنایا جاسکتا ہے مگرمستقل مدد اور سرخروئی حاصل نہیں کی جاسکتی ہے۔ حقیقی مالک و مدد گار اللہ ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں پوری دنیا ہے اس لیے ایسے در پرسرجھکایا جائے جہاں ہاتھ پھیلاتے ہوئے خوشی اور فخر محسوس ہو۔ لیکن بیشتراسلامی ممالک نے دنیا کی ’سپرپاور‘ کو ہی اپنا مالک ومختار سمجھ رکھا ہے، یہ ان کی مجبوری بھی ہے کیونکہ وہ خود کو پہچاننے سے عاری ہیں، اگر یہ اپنے کو پہچان رہے ہوتے تو یقیناً یہ لوگ دنیائے فانی کے ’سپر پاور‘ پر دنیائے باقی کے حقیقی سپرپاور کو ہی ترجیح دیتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */