آئین صدر جمہوریہ اور گورنر کو کسی بھی بل کو روکنے کا اختیار نہیں دیتا، سپریم کورٹ میں چار ریاستوں کی اہم دلیلیں
کرناٹک کی طرف سے پیش سینئر وکیل گوپال سبرمنیم نے کہا- ’’گورنر کو وسیع صوابدید دینا دوہرے اقتدار کی حالت پیدا کرے گا۔ نہ تو صدر جمہوریہ اور نہ ہی گورنر کو کسی بل پر ویٹو کا حق دیا جا سکتا ہے۔‘‘

کرناٹک، تمل ناڈو، کیرالہ اور پنجاب نے سپریم کورٹ میں دلیل دی ہے کہ آئین صدر جمہوریہ اور گورنر کو کسی بھی بل کو روکنے کا اختیار نہیں دیتا، بھلے ہی وہ غیر آئینی ہو یا پھر کسی مرکزی قانون سے ٹکرا رہا ہو۔ ریاستوں نے کہا کہ کابینی نظام کی بالادستی کو برقرار رکھنا ضروری ہے اور مقننہ کے ذریعہ پاس بل عوام کی خواہش کا آئینہ ہوتا ہے۔
کرناٹک کی طرف سے پیش سینئر وکیل گوپال سبرمنیم نے چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوائی کی صدارت والی پانچ ججوں کی بنچ کے سامنے کہا، ’’گورنر کو وسیع صوابدید دینا دوہرے اقتدار کی حالت پیدا کرے گا۔ نہ تو صدر جمہوریہ اور نہ ہی گورنر کو کسی بل پر ویٹو کا حق دیا جا سکتا ہے۔ وہ ہمیشہ کابینہ کی صلاح اور تعاون سے بندھے رہتے ہیں۔‘‘
گوپال سبرمنیم نے یہ بھی قبول کیا کہ کچھ خاص معاملوں میں گورنر کابینہ کی صلاح کے بغیر بھی کارروائی کر سکتے ہیں ان میں- بدعنوانی مخالف قانون کے تحت وزراء کے خلاف پروزکیوشن کی اجازت دینا، یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پر ذمہ داری نبھانا، مذہبی بورڈوں کے سربراہ کے طور پر کردار ادا کرنا شامل ہے۔
حالانکہ گوپال سبرمنیم نے صاف کیا کہ کسی بل پر نااتفاقی ظاہر کرنے کا حق صرف اسے ایک بار نظرثانی کے لیے بل کو لوٹانے تک ہی محدود ہے۔ اگر مقننہ اسے دوبارہ منظور کر دتیی ہے، چاہے ترمیم کے ساتھ یا بغیر ترمیم کے، تو گورنر کے پاس اسے منظوری دینے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں بچتا۔
سبرمنیم نے دلیل دی کہ موجودہ سیاسی صورتحال میں صدرجمہوریہ اور گورنر کے لیے بلوں پر فیصلہ لینے کے لیے وقت کی حد طے ہونی ضروری ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ نے 8 اپریل کو تمل ناڈو معاملے میں اپنے فیصلے میں یہ واضح کیا تھا کہ اگر صدر جمہوریہ یا گورنر غیر معینہ مدت تک فیصلہ ٹالتے رہیں تو ایسے میں ڈیڈ لائن کا تعین ریاستوں کو انصاف پانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ سماعت کے دوران بنچ میں شامل جسٹس سوریہ کانت، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس اے ایس چندرچوڑ نے سبرمنیم کی دلیلوں اور عدالت میں ان کی شائستگی کی ستائش کی۔
پنجاب کی طرف سے سینئر وکیل اروند داتار نے کہا کہ ریاستی اسمبلیاں ایسے قانون بنانے کے لیے بھی آزاد ہیں جو غیر آئینی سمجھے جائیں جیسے کہ ریزرویشن حد کو 50 فیصد سے اوپر لے جانے والے نظم۔ انہوں نے کہا، ’’گورنر کے پاس کسی بھی بل کے آئینی جواز کو طے کرنے کا حق نہیں ہے۔ یہ کام صرف آئینی عدالتوں کا ہے۔ صدر جمہوریہ بھی کابینہ کی صلاح کے پابند ہوتے ہیں اور وہ کسی ریاست کے عوام کی خواہش کو خارج کرنے کے لیے بل کو زیر التوا نہیں رکھ سکتے۔‘‘
سماعت کے دوران جب سینئر وکیل پی ولسن نے ڈی ایم کے کی طرف سے دلیلیں دینے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں روکتے ہوئے کہا کہ تمل ناڈو پہلے ہی اس معاملے پر تفصیل سے اپنی دلیلیں پیش کر چکا ہے۔ اگر کسی سیاسی پارٹی کو سماعت کا موقع دیا گیا تو دیگر سیاسی پارٹی بھی مداخلت کرنے لگیں گی۔ معاملے کی سماعت ممکنہ طور پر 10 ستمبر یعنی آج ختم ہو جائے گی۔
اس سے پہلے 3 ستمبر کو مغربی بنگال حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ بل کی شکل میں عوام کی خواہشات کو گورنروں اور صدر جمہوریہ کی ’من مرضی خواہشات‘ کے ماتحت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایگزیکٹیو کو قانون سازی میں مداخلت کرنے سے روکا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔