"اخلاق کا کٹا ہوا ہاتھ تو مل گیا، اب ہم انصاف کی تلاش کر رہے ہیں"

24 اگست کو یو پی کے سہارنپور واقع نانوتا باشندہ اخلاق سلمانی کام کی تلاش میں پانی پت گیا تھا۔ وہاں اس کے ساتھ مار پیٹ ہوئی اور ہاتھ کاٹ دیا گیا۔

تصویر بذریعہ آس محمد کیف
تصویر بذریعہ آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

"بڑے اور طاقتور لوگ ہمیشہ سچے اور صحیح ہوتے ہیں، اور ہم جیسے غریب جھوٹے۔ اب پولس کی کہانی سیاسی ہو گئی ہے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ میرے بھائی کا ہاتھ کٹ گیا ہے۔ اس کے بدن پر سینکڑوں چوٹ کے نشان ہیں۔ اس کے سر میں اینٹ ماری گئی ہے۔ اس کے پیر میں کیل چبھائی گئی ہے۔ اس کے زخم چیخ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہوئی درندگی نظر آ رہی ہے۔ آپ یہ بتائیں جتنی چوٹ اس کو لگی ہے، وہ زندہ بچ گیا کیا یہی تعجب ہے۔ 28 سال کا جوان ہے، بدن میں طاقت تھی، برداشت کر گیا میرا بھائی۔ چار دن میں ہوش آیا اسے۔ موت سے اب تک لڑ رہا ہے، بدن میں انفیکشن ہو گیا ہے اور خطرہ لگاتار بڑھ رہا ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ لیڈر آتے ہیں، بھروسہ دلاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ پولس نے ہمارے خلاف ہی رپورٹ درج کر دی ہے۔ میری فیملی کو لگتا ہے کہ میرے بھائی کو انصاف نہیں ملے گا۔ میں نے طے کیا ہے کہ آخر دم تک لڑوں گا۔"

یہ باتیں اکرام سلمانی کہہ رہے ہیں جو پانی پت میں لنچنگ کے دوران بچ گئے اخلاق سلمانی کے بڑے بھائی ہیں۔ اکرام کہتے ہیں کہ وہ گزشتہ 25 دن سے رات میں سو نہیں پائے ہیں۔ رات دن اسپتال اور تھانہ پولس کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اکرام کہتے ہیں "اخلاق درد سے چیختا رہتا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ یہ سزا ہمیں ہماری شناخت کی وجہ سے ملی ہے یا غریبی کی ٹھوکروں سے۔ پولس کا ایک داروغہ سمجھوتے کی بات کہہ رہا تھا۔ چاندنی باغ پولس میڈیا میں کہتی ہے کہ ہم انھیں تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ ہم تو ان کے دروازے پر کھڑے ہیں۔"


اکرام بتاتے ہیں کہ اب اخلاق کے جسم میں زہر (انفیکشن) پھیل رہا ہے۔ اس نے بات کرنا بند کر دیا ہے۔ وہ اشاروں میں اپنی بات کہتا ہے۔ صرف ہاتھ کٹنے کی ایک وجہ نہیں ہے۔ اس کے جسم کے ہر ایک حصے پر چوٹ ہے۔ اس کے سر میں گہرا زخم ہے۔ جانگھ میں کیل جیسا کچھ چبھا ہوا ہے۔ اس پر مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ اس کا جسم بھی چیختا ہے اور وہ بھی۔

"اخلاق کا کٹا ہوا ہاتھ تو مل گیا، اب ہم انصاف کی تلاش کر رہے ہیں"

اکرام آگے کہتے ہیں "پولس نے اخلاق کے خلاف الٹا مقدمہ لکھنے میں جلدبازی دکھائی۔ ہمارے مقدمے میں بھی قصورواروں کو بچانے کی کوشش کی ہے۔ جائے وقوع سے 8 کلو میٹر دور تک ہم نے اخلاق کا کٹا ہوا ہاتھ تلاش کیا تھا، لیکن وہ نہیں ملا۔ اب پولس اسے وہیں سے برآمد ہوا بتا رہی ہے، جہاں ہمیں وہ نہیں ملا تھا۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ ہاتھ وہاں لا کر پھینکا گیا ہے تاکہ ریل حادثہ ثابت کیا جا سکے۔"


تقریباً ایک ماہ قبل 24 اگست کو سہارنپور کے قصبہ نانوتا باشندہ اخلاق سلمانی کام کی تلاش میں پانی پت گیا تھا۔ وہاں اس کے ساتھ مار پیٹ ہوئی۔ اس کا اور اس کی فیملی کا دعویٰ ہے کہ اس کا ایک ہاتھ صرف اس لیے کاٹ دیا گیا کیونکہ اس پر ایک مذہبی شناخت والا ٹیٹو-786 لکھا ہوا تھا۔ یہ واقعہ ہریانہ کے پانی پت واقع چاندنی باغ علاقہ میں ہوا اور ایک ہفتہ تک ریلوے پولس اور سول پولس کے درمیان کیس جھولتا رہا۔ معاملہ دو فرقہ کا ہونے کی وجہ سے سیاسی موڑ بھی لینے لگا۔ اخلاق کی فیملی کا دعویٰ ہے کہ اس پر فرقہ وارانہ اسباب سے حملہ کیا گیا، جب کہ ملزم جے پال سینی کے فریق کا کہنا ہے کہ اخلاق ان کے بچے کو چوری کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اخلاق کے بھائی اکرام اسی دن سے اپنے بھائی کی تیمارداری اور پیروکاری میں جٹے ہیں اور اس معاملے کی سب سے زیادہ جانکاری انہی کے پاس ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے مقدمہ لکھے جانے کے بعد ہریانہ پولس نے بھائی اخلاق پر درندگی کرنے والے کی تحریر پر میرے بھائی کے خلاف ہی مقدمہ درج کر دیا۔ ہمارا پورا وقت اپنے بھائی کی تیمارداری میں گزر رہا تھا۔ اب پانی پت کی پولس ملزمین کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔


اکرام کہتے ہیں کہ "ہم 6 بھائی ہیں۔ بال کاٹنے کا کام کرتے ہیں۔ پہلے ہم یہ کام نہیں کرتے تھے۔ لیکن اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے اِدھر اُدھر جانا پڑ رہا ہے۔ اخلاق اسی لیے کام کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔ بے روزگار آدمی ٹینشن میں آ ہی جاتا ہے۔ وہ مایوس ہو کر پارک میں بیٹھا تھا۔ ہمیں ڈر ہے کہ اب ہم میں سے کوئی کام کی تلاش میں باہر نہیں جائے گا۔ خاص کر گھر کی عورتوں کا کہنا ہے کہ بھوکے رہ لیں گے لیکن جان کا خطرہ نہیں لے سکتے۔"

"اخلاق کا کٹا ہوا ہاتھ تو مل گیا، اب ہم انصاف کی تلاش کر رہے ہیں"

اس واقعہ کے بعد خاص طور سے نانوتا میں سہرن دیکھنے کو مل رہی ہے۔ مقامی سماجی کارکن مستقیم احمد بتاتے ہیں کہ یہاں کے تقریباً ہر ایک گھر میں اس واقعہ کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ اس واقعہ سے پورے قصبہ میں صدمہ ہے۔ اخلاق کے جسم کی چوٹ بتاتی ہے کہ اسے مرا ہوا سمجھ کر ہی پھینکا گیا۔ یہ تو اس کی قسمت ہے کہ وہ بچ گیا۔ لوگ یقین نہیں کر پا رہے ہیں کہ کوئی اتنا بے رحم کیسے ہو سکتا ہے!


واقعہ کے بعد اخلاق رات بھر ریلوے لائن کے کنارے پڑا رہا اور اسے اس کے چچیرے بھائی ندیم نے اسپتال پہنچایا۔ ندیم کے مطابق وہ صبح ساڑھے سات بجے وہاں پہنچا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اخلاق کا ہاتھ کٹا ہوا ہے اور اس کے پورے جسم پر چوٹ کے نشان ہیں۔ اس کے جسم پر ایک بھی کپڑا نہیں تھا۔ وہاں دو پولس اہلکار بھی تھے، ان کی مدد سے اخلاق کو اسپتال لے جایا گیا۔ ندیم نے یہ بھی بتایا کہ اخلاق نے ہی اسے فون کر کے وہاں بلایا تھا۔

ندیم کا کہنا ہے کہ اخلاق کو روہتک پی جی آئی اسپتال میں داخل کروایا گیا۔ وہاں وہ 28 اگست تک رہا۔ پولس نے اس معاملے میں 7 ستمبر کو ایف آئی آر درج کی۔ اخلاق کے بھائی بتاتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ پولس کہہ رہی تھی کہ اخلاق بیان دینے کی حالت میں نہیں تھا۔ اکرام سلمانی کہتے ہیں کہ "بہت زیادہ کوشش کے بعد ایک سب انسپکٹر ان کے ساتھ رندھیر سینی کے گھر گئی۔ وہاں اب بھی آرا مشین ہے جس سے میرے بھائی کا ہاتھ کاٹا گیا۔"


اکرام بتاتے ہیں "ہم جی آر پی، چاندنی باغ اور کشن پورہ تھانوں کے درمیان ہنڈولا بن گئے ہیں۔ اخلاق پر اب چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا گیا ہے۔ تب چار لوگ ایک تنہا پر بہادری دکھا رہے تھے، اور اب بچے کو آگے کر رہے ہیں۔"

دوسری طرف ہریانہ پولس نے دونوں فریقین کا معاملہ درج کیا ہے اور جانچ جاری ہے۔ ابھی تک معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ اکرام کہتے ہیں کہ اب انھیں انصاف کے لیے لگاتار دوڑنا پڑ رہا ہے۔ یہ بہت مشکل نظر آتا ہے۔ اخلاق اب گھر لوٹ آیا ہے۔ چارپائی پر ہے۔ اس کا انفیکشن بڑھ رہا ہے اور اس کی جان پر خطرہ بھی۔ اکرام بے حد لرزتی آواز میں کہتے ہیں "اخلاق کا کٹا ہوا ہاتھ تو مل گیا ہے، اب ہم انصاف کی تلاش کر رہے ہیں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */