جموں و کشمیر سیلاب: 6 یاتریوں سمیت 10 افراد ہلاک، متعدد زخمی
تمام ضلعی افسران کو ہائی ایلرٹ پر رہنے، متاثرہ خاندانوں کو فوری خوراک، پانی، ادویات اور دیگر ضروریات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

جموں و کشمیر ایک بار پھر شدید قدرتی آفت کی زد میں آگیا ہے۔ منگل کے روز شدید بارشوں کے باعث دریاؤں میں طغیانی، زمین کھسکنے اور سیلابی ریلوں نے جموں خطے میں تباہی مچادی، جس کے نتیجے میں کم از کم 10 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
ترکوٹا پہاڑی پر واقع ویشنو دیوی مندر کے 12 کلومیٹر طویل پیدل راستے پر، ادھکُواری کے مقام پر منگل کی شام 3 بجے کے قریب پہاڑ کھسکنے کا واقعہ پیش آیا۔ اس حادثے میں 6 افراد جاں بحق اور 14 زخمی ہوگئے، جبکہ متعدد افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق ہمکوٹی والے راستے کو پہلے ہی صبح کے وقت بند کر دیا گیا تھا، جب کہ پرانے راستے پر یاترا دوپہر 1:30 بجے تک جاری تھی، جسے بعد ازاں حفاظتی تدابیر کے تحت بند کر دیا گیا۔ پنجاب کے موہالی کی رہائشی کرن نے بتایا، ’ہم درشن کرکے واپس آ رہے تھے کہ اچانک پہاڑ سے پتھر، درخت اور مٹی گرنے لگی۔ میں بمشکل جان بچی، لیکن زخمی ہو گئی ہوں۔‘ریسکیو کے لیے فوج کی تین ٹیمیں کٹرامیں تعینات کی گئیں۔ فوج کے مطابق، وہ مقامی انتظامیہ کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
ڈوڈہ ضلع میں بارش کے باعث چار افراد جاں بحق ہوئے، جن میں سے تین دریا میں گر کر ڈوب گئے اور ایک شخص مکان گرنے سے جاں بحق ہوا۔ کشتواڑ، ریاسی، راجوری، رام بن اور پونچھ سے بھی انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ یہ آفت ایسے وقت میں آئی ہے جب صرف 12 دن قبل 14 اگست کو کشتواڑ کے چسوٹی گاؤں میں کلاؤڈ برسٹ سے 65 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
شدید بارشوں کے باعث موبائل نیٹ ورک، انٹرنیٹ اور بجلی کا نظام کئی علاقوں میں مفلوج ہو چکا ہے۔ فائبر آپٹک کیبلز کے متاثر ہونے سے لاکھوں لوگ رابطے سے محروم ہو گئے ہیں۔ تمام نیٹ ورک سروس فراہم کرنے والے اداروں نے فوری بحالی کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق تمام سرکاری و نجی اسکولز 27 اگست تک بند کر دیے گئے ہیں۔ دسویں اور گیارہویں جماعات کے امتحانات بھی ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ بی ایس ایف سمیت مختلف سیکیورٹی اداروں میں کانسٹیبلز کی بھرتی مہم بھی مؤخر کر دی گئی ہے۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے صورت حال کو "سنگین" قرار دیتے ہوئے ہنگامی اجلاس کی صدارت کی۔ تمام ضلعی افسران کو ہائی ایلرٹ پر رہنے، متاثرہ خاندانوں کو فوری خوراک، پانی، ادویات اور دیگر ضروریات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہنگامی بحالی کے لیے اضافی فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں۔
کٹھوعہ ضلع میں مدھوپور بیراج سے پانی کی سطح ایک لاکھ کیوسک سے تجاوز کر گئی، جس کے باعث نشیبی علاقے زیرِ آب آ گئے۔ دریائے ترناہ، اوجھ، توی اور چناب بھی خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہے ہیں۔محکمہ موسمیات کے مطابق، آج تک مزید بارشوں، کلاؤڈ برسٹ، لینڈ سلائیڈنگ اور فلیش فلڈز کا خطرہ برقرار ہے۔ عوام کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ندی نالوں اور پہاڑی علاقوں سے دور رہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔