بنگال: چائے باغات کے ورکرس متعدد مسائل سے دو چار، جیتنے کے بعد کوئی خبر نہیں لیتا

چائے باغات میں کام کرنے والی ایک خاتون ممتاز بی بی کہتی ہیں کہ یہاں ہمیں یومیہ 160 روپے ملتے ہیں، ہماری فیملی میں 6 افراد ہیں۔ ایسے میں ہم خرید کر پانی پینے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

کولکاتا: شمالی بنگال بالخصوص دارجلنگ اور جلپائی گوڑی و دیگر اضلاع چائے باغات کے لئے جانے جاتے ہیں اور یہاں کی چائے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ مگر ان چائے باغات میں کام کرنے والے ہزاروں افراد کی زندگی کن مشکلات سے گزر رہی ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ بیشتر چائے باغات میں ورکروں کے لئے پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر سہولیات سے بھی چائے باغات کے ورکرس محروم ہیں۔

ان چائے باغات میں کام کرنے والے ورکروں کی شکایت ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران سیاسی جماعتیں چائے باغات کے ورکروں کے مسائل کو بڑے ہی زور شور سے اٹھاتی ہیں۔ مگر انتخابات کے بعد ہمیں نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ریاستی حکومت ان حالات کے لئے مرکز کو ذمہ دار ٹھہرا کر پلڑا جھاڑ لیتی ہے تو مرکز ی حکومت ریاستی حکومت کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ الزام در الزام کے کھیل میں ہم بے حال ہو رہے ہیں۔

دارجلنگ کے ماتی گاڑا ٹی اسٹیٹ میں ملازم وجے منڈا کہتے ہیں کہ ”ہم لوگ سال بھر پانی کی قلت سے جوجھ رہے ہیں، تاہم گرمی میں یہ قلت مزید بڑھ جاتی ہے۔ زیادہ تر ٹیوویل سوکھ گئے ہیں، ہمارا انحصار سپلائی پانی پر ہے مگر وہ کبھی کبھی ہی آتا ہے۔ انتخابات آتے ہیں اور جاتے ہیں مگر ہماری حالت میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔

شمالی بنگال میں چائے باغات میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں اس کے باوجود یہاں پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ چائے باغات کے مالکان جہاں یہ ورکر کام کرتے ہیں وہ اس کے لئے ریاستی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی ذمہ داری سے نبردآزما ہوجاتے ہیں۔ موہرگنج گولما ٹی اسٹیٹ کے ملازم سنجے سوریا نے کہا کہ شہر میں کارپوریشن دن میں دو مرتبہ پانی سپلائی دیتی ہے مگر ہمیں اس سے محروم کردیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم ووٹر نہیں ہیں اور ہم لوگ کسی کو ووٹ نہیں دیتے ہیں؟ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم کبھی ووٹ دینے سے نہیں چوکتے ہیں مگر اس کے باوجود ہماری طرف کسی کی توجہ نہیں جاتی ہے۔ ہمارے سوالات کا جواب نہ کمپنی کے پاس ہیں اور نہ حکومت کے پاس۔ گزشتہ 9 سالوں سے پینے کے صاف پانی کیلئے آواز اٹھاتے اٹھاتے ہم لوگ تھک چکے ہیں۔ ہمیں پینے کا صاف پانی خرید کر پینا پڑتا ہے۔

چائے باغات میں کام کرنے والی ایک خاتون ممتاز بی بی کہتی ہیں کہ یہاں ہمیں یومیہ 160 روپے ملتے ہیں، ہماری فیملی میں 6 افراد ہیں۔ ایسے میں ہم خرید کر پانی پینے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔

ٹریڈ یونین انٹک کے آلوک چکرورتی کہتے ہیں کہ پینے کے پانی کے علاوہ چائے باغات کے ورکر کئی اہم سہولیات ہیلتھ کیئر اور ہاؤسنگ جیسی سہولیات سے محروم ہیں۔ چکرورتی کہتے ہیں کہ چائے باغات کی حالت بہت ہی اچھی ہے۔ مارکیٹ میں سپلائی بھی اچھی ہو رہی ہے۔ مالکان ترقی بھی کر رہے ہیں۔ مگر ورکروں کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کئی سالوں سے چائے باغات کے ورکروں کی کم سے کم مزدوری تعین کا مسئلہ التوا کا شکار ہے۔

چکرورتی کہتے ہیں کہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتیں ہمارے مسائل پر بات کرتی ہیں، چائے باغات کے ورکروں کے لئے وعدے کیے جاتے ہیں مگر انتخابات ختم ہونے کے بعد یہ تمام وعدے فراموش کردیئے جاتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔