تمل ناڈو حکومت کا سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے تک وقف بورڈ کی تشکیلِ نو ملتوی کرنے کا فیصلہ

تمل ناڈو کے وزیر ایس ایم ناصر نے واضح کیا کہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے تک ریاست میں وقف بورڈ دوبارہ تشکیل نہیں پائے گا۔ ریاستی حکومت نے مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم دو دہرایا

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس
i
user

قومی آواز بیورو

چنئی: تمل ناڈو کے اقلیتی بہبود اور نان ریزیڈنٹ تمل ویلفیئر کے وزیر ایس ایم ناصر نے واضح کیا ہے کہ ریاستی وقف بورڈ کو اس وقت تک دوبارہ تشکیل نہیں دیا جائے گا جب تک کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر اپنا حتمی فیصلہ نہیں سنا دیتا۔

وزیر نے اپنے بیان میں کہا کہ مرکزی حکومت نے وقف (ترمیمی) قانون 1995 میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے ’یونائیفائیڈ وقف مینجمنٹ، ایمپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ 1995‘ کے نام سے نافذ کیا ہے، جو 8 اپریل 2025 سے مؤثر ہوگا۔ تاہم، اس قانون کے مختلف پہلوؤں پر مسلمانوں سمیت کئی حلقوں نے شدید اعتراضات اٹھائے ہیں۔

ایس ایم ناصر نے کہا کہ حکمراں ڈی ایم کے حکومت نے اس ترمیم شدہ قانون کی مخالفت کی ہے اور اسے سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کیا ہے۔ ان کے مطابق کئی دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی اس قانون کے خلاف عدالت عظمیٰ میں عرضیاں دائر کی ہیں۔ ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے 15 ستمبر کو عبوری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے ترمیمی قانون کی کچھ دفعات پر عمل درآمد روک دیا ہے۔

انہوں نے کہا، ’’ریاستی حکومت کا مؤقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کرے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس قانون کے نفاذ کے بعد برادری میں خدشات اور بے چینی پائی جاتی ہے، اسی لیے حکومت نے قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں اس کے خلاف اپیل کی ہے۔ جب تک سپریم کورٹ حتمی فیصلہ نہیں دیتا، وقف بورڈ کی تشکیلِ نو نہیں ہوگی۔‘‘


وقف املاک کے انتظام سے متعلق یہ نیا قانون مسلمانوں میں شدید بحث کا باعث بنا ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے مرکزی حکومت ریاستی خود مختاری اور کمیونٹی کے انتظامی حقوق کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ خاص طور پر یہ اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وقف املاک پر کمیونٹی کا مؤثر کنٹرول متاثر ہوگا۔

دریں اثنا، مسلم منیترا کڈگم (ایم ایم کے) کے صدر ایم ایچ زواہراﷲ نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وقف بورڈ کے روزمرہ امور متاثر نہ ہوں۔ انہوں نے کہا، ’’حکومت کو فوری طور پر ایک اسپیشل آفیسر مقرر کرنا چاہیے تاکہ بورڈ کے کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ اس کے علاوہ اسسٹنٹ سیکریٹری کی اسامی بھی تقریباً دو برس سے خالی ہے، جسے فوراً پُر کیا جانا چاہیے۔‘‘

زواہر اللہ نے مزید کہا کہ مسلم برادری کے بڑے حصے نے ترمیمی قانون پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ایسے حالات میں ریاستی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کمیونٹی کے اعتماد کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ ریاستی حکومت کے اعلان کو ماہرین نے ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے تک کسی بھی قسم کی نئی تشکیل یا تعیناتی سے مزید تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں، اس لیے حکومت کا محتاط رویہ درست سمت میں ہے۔

تمل ناڈو میں وقف بورڈ نہ صرف مذہبی اور سماجی امور کے حوالے سے بلکہ تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے اس کے انتظامی تسلسل کو برقرار رکھنا لازمی ہے تاکہ برادری کی خدمات متاثر نہ ہوں۔