صدر جمہوریہ کے 14 سوالوں پر غور و خوض کرے گا سپریم کورٹ، مرکزی اور ریاستی حکومت کو نوٹس، ایک ہفتہ میں جواب طلب

معاملہ کی سماعت کے دوران کیرالہ حکومت کی جانب سے پیش وکیل کے کے وینو گوپال نے صدر جمہوریہ کے ذریعہ بھیجے گئے سوالات پر اعتراض کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ قابل سماعت نہیں ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی جانب سے بھیجے گئے سوالات پر مرکزی حکومت اور ملک کی تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو نوٹس جاری کر ایک ہفتہ میں جواب طلب کیا ہے۔ آئینی بنچ میں چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی، جسٹس سوریہ کانت، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس ایس چندرکر شامل ہیں۔ آئینی بنچ کی صدارت کر رہے سی جے آئی بی آر گوئی نے کہا کہ ’’آئندہ سماعت میں ہم مدت کار طے کریں گے۔‘‘ عدالت اس معاملہ پر اگلی سماعت 29 جولائی کو کرے گی۔

آج ہوئی سماعت کے دوران کیرالہ حکومت کی جانب سے پیش وکیل کے کے وینو گوپال نے صدر جمہوریہ کے ذریعہ بھیجے گئے سوالات پر اعتراض کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ قابل سماعت نہیں ہے۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ آج اس معاملہ کو اٹھانا قبل از وقت ہوگا۔ اس پر سینئر وکیل کپل سبل نے بھی رضامندی کا اظہار کیا۔ تمل ناڈو حکومت کی جانب سے پیش وکیل نے بھی صدر جمہوریہ کے بھیجے گئے سوالات پر اعتراض ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم براہ راست متاثر ہونے والے فریق ہیں، لہٰذا یہ معاملہ قابل سماعت نہیں ہے۔


واضح ہو کہ سپریم کورٹ نے 8 اپریل کو دیے گئے اپنے ایک فیصلہ میں تمام ریاستوں کے گورنروں کو اسمبلی سے منظور شدہ بل کو منظوری دینے کی مدت کار طے کر دی تھی۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا تھا کہ گورنر کو آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت کسی بل کے متعلق فیصلہ لینے کا کوئی خصوصی اختیار نہیں ہے، وہ وزارتی کونسل کے صلاح پر کام کرتے ہیں۔ ایسے میں انہیں وزارتی کونسل کے مشورے پر لازمی طور پر عمل کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ اگر صدر جمہوریہ اور گورنر حکومت کے ذریعہ بھیجے گئے کسی بل پر اپنی منظوری نہیں دیتے ہیں تو ریاستی حکومتیں براہ راست سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہیں۔

صدر جمہوریہ درپودی مرمو نے سپریم کورٹ سے پوچھے یہ 14 سوالات:

  1. گورنر کے سامنے اگر کوئی بل پیش کیا جاتا ہے تو آئین کے آرٹیکل 200 کے تحت ان کے پاس کیا اختیارات ہیں؟

  2. کیا گورنر ان اختیارات پر غور و خوض کرتے وقت وزراء کی کونسل کے مشورے سے مربوط ہیں؟

  3. کیا آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کے ذریعہ لیے گئے فیصلے پر عدالتی نظر ثانی ہو سکتی ہے؟

  4.  کیا آرٹیکل 361 اور آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کے لیے گئے فیصلوں پر عدالتی نظر ثانی کو مکمل طور سے روک سکتا ہے؟

  5. کیا عدالتیں گورنر کے ذریعہ آرٹیکل 200 کے تحت لیے گئے فیصلوں کی مدت کار طے کر سکتی ہے، جبکہ آئین میں ایسی کوئی مدت کار طے نہیں کی گئی ہے؟

  6. کیا آرٹیکل 201 کے تحت صدر جمہوریہ کے ذریعہ لیے گئے فیصلوں پر نظر ثانی ہو سکتی ہے؟

  7. کیا عدالتیں آرٹیکل 201 کے تحت صدر جمہوریہ کے فیصلہ لینے کی مدت کار طے کر سکتی ہیں؟

  8. اگر گورنر نے بل کو فیصلے کے لیے محفوظ رکھ لیا ہے تو کیا آرٹیکل 143 کے تحت سپریم کورٹ کو سپریم کورٹ کا مشورہ لینا چاہیے؟

  9. کیا گورنر اور صدر جمہوریہ بالترتیب: آرٹیکل 200 اور 201 کے تحت لیے گئے فیصلوں پر عدالتیں نفاذ سے پہلے سماعت کر سکتی ہیں؟

  10. کیا سپریم کورٹ آرٹیکل 142 کے ذریعہ صدر جمہوریہ اور گورنر کے آئینی اختیارات کو تبدیل کر سکتا ہے؟

  11. کیا آرٹیکل 200 کے تحت گورنر کی منظوری کے بغیر ریاستی حکومت قانون نافذ کر سکتی ہے؟

  12. کیا سپریم کورٹ کا کوئی بنچ آرٹیکل 145(3) کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق معاملوں کو سپریم کورٹ کے 5 ججوں پر مشتمل بنچ کو بھیجنے کا فیصلہ کر سکتا ہے؟

  13. کیا سپریم کورٹ ایسے ہدایات/احکامات دے سکتا ہے جو آئین یا موجودہ قوانین سے ہم آہنگ نہ ہو؟

  14. کیا آرٹیکل 131 کے تحت آئین اس کی اجازت دیتا ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومت کے درمیان تنازعہ صرف سپریم کورٹ ہی سلجھا سکتا ہے؟