پنجاب اور ہریانہ ایس وائی ایل نہر تنازع کا خوشگوار حل نکالیں، سپریم کورٹ کی ہدایت

سپریم کورٹ نے پنجاب و ہریانہ سے ایس وائی ایل نہر تنازع پر مل کر حل نکالنے کی ہدایت دی۔ عدالت نے خبردار کیا کہ اگر بات نہ بنی تو 13 اگست کو فیصلہ سنایا جائے گا

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ میں منگل کو پنجاب اور ہریانہ کے درمیان جاری ستلج-یمنا لنک (ایس وائی ایل) نہر تنازع پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے دونوں ریاستوں سے کہا کہ وہ اس مسئلے کا خوشگوار حل نکالنے کے لیے مرکز کے تعاون سے کام کریں، بصورت دیگر عدالت خود فیصلہ سنائے گی۔

سپریم کورٹ کی بنچ نے واضح کیا کہ اگر دونوں ریاستیں حل پر متفق نہ ہو سکیں تو 13 اگست کو عدالت اس تنازع پر حتمی سماعت کرے گا۔ سماعت کے دوران مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی وزیرِ جل شکتی نے ریاستوں کے درمیان بات چیت کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کی صدارت دونوں ریاستوں کے چیف سیکریٹریز کر رہے ہیں۔ مرکز کی جانب سے بتایا گیا کہ اس حوالے سے ایک اضافی حلف نامہ بھی یکم اپریل 2025 کو جمع کرایا گیا ہے۔


ہریانہ حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سینئر وکیل شیام دیوان نے عدالت کو بتایا کہ اب تک کی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں اور بات چیت سے کوئی قابلِ قبول نتیجہ نہیں نکلا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہریانہ نے اپنی حدود میں نہر کا کام مکمل کر لیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پنجاب کی جانب سے پانی چھوڑا ہی نہیں جا رہا۔

پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل گرمندر سنگھ نے موقف اختیار کیا کہ عدالت کی جو ڈکری دی گئی تھی، وہ اضافی پانی کے لیے تھی اور نہر کی تعمیر اب بھی باقی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ طے کرنا ابھی باقی ہے کہ ہریانہ کو اضافی پانی ملنا بھی چاہیے یا نہیں، کیونکہ یہ معاملہ فی الحال ٹربونل کے سامنے زیرِ غور ہے۔

مرکز کی نمائندگی کرتے ہوئے اے ایس جی ایشوریا بھاٹی نے کہا کہ ہم نے دونوں ریاستوں کے درمیان ثالثی کی کوششیں بھی کی تھیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے نشاندہی کی کہ حلف نامے میں لکھا گیا ہے کہ دونوں فریق ثالثی پر رضامند ہو چکے ہیں۔

تاہم، ہریانہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے سرکاری طور پر یہ بیان دیا ہے کہ ہم کسی ثالثی میں شامل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے، لہٰذا بات چیت ناکام ہو گئی۔ اُنہوں نے عدالت کو یاد دلایا کہ 2016 سے مسلسل کوششیں ہو رہی ہیں لیکن اب تک کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔


واضح رہے کہ پنجاب اور ہریانہ کے درمیان پانی کا یہ تنازع کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ 1966 میں ہریانہ کے پنجاب سے الگ ہونے کے بعد 1981 میں دونوں ریاستوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر معاہدہ ہوا تھا۔ ہریانہ میں زرعی زمینوں کی آبپاشی کے لیے پانی کی شدید قلت کے پیش نظر یہ نہر تجویز کی گئی تھی لیکن برسوں گزرنے کے باوجود تنازع برقرار ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔