سپریم کورٹ میں ’یکطرفہ طلاق‘ کو چیلنج پیش کرنے والی عرضی پر سماعت 19 نومبر کو
سپریم کورٹ میں طلاق حسن کے متعلق نظیر حنا اور ناظرین نِشا سمیت کئی خواتین نے عرضیاں داخل کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’مسلم خواتین کو بھی دیگر مذاہب جیسے حقوق ملنے چاہئیں۔‘‘

مذہب اسلام میں مسلم مردوں کو طلاق کا حق دینے والے نظام کے خلاف داخل عرضیوں پر سپریم کورٹ 19 نومبر کو حتمی سماعت کرے گا۔ عدالت نے قومی کمیشن برائے خواتین، قومی انسانی حقوق کمیشن اور کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال جیسے اداروں سے بھی رائے طلب کی ہے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے طلاق حسن سمیت دیگر نظاموں کے متعلق مذہبی مواد کو بھی عدالت میں رکھنے کو کہا ہے۔
سپریم کورٹ میں طلاق حسن کے متعلق داخل عرضیاں 3 سال سے زیر التوا ہیں۔ یہ عرضیاں بے نظیر حنا اور ناظرین نِشا سمیت کئی ایسی خواتین کی ہیں جو یکطرفہ طلاق (طلاقِ حسن) سے ذاتی طور پر متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم خواتین کو بھی دیگر مذاہب جیسے حقوق ملنے چاہئیں۔ عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ مذہبی آزادی کے نام پر مسلم خواتین کو قانون کی نظر میں مساوات (آرٹیکل 14) اور باعزت زندگی گزارنے (آرٹیکل 21) جیسے بنیادی حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ عرضی گزاروں نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ طلاقِ حسن اور عدالتی طریقے سے نہ ہونے والے دیگر تمام اقسام کی طلاق کو غیر قانونی قرار دے۔ شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1937 کی دفعہ 2 منسوخ کرنے کا حکم دیا جائے۔ ساتھ ہی مسلم میریج ایکٹ کی تحلیل 1939 بھی مکمل طور سے منسوخ ہو۔
قابل ذکر ہے کہ 22 اگست 2017 کو سپریم کورٹ نے ایک ساتھ 3 طلاق بول کر شادی ختم کرنے کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ طلاق بدعت تصور کیے جانے والے اس نظام کے حوالے سے بیشتر علماء کا بھی خیال تھا کہ یہ قرآن کے مطابق نہیں ہے۔ عدالتی فیصلہ کے بعد حکومت نے ایک ساتھ 3 طلاق بولنے کو جرم قرار دیتے ہوئے ایک قانون بھی بنا دیا ہے، لیکن طلاقِ حسن اور طلاقِ احسن جیسے نظام اب بھی برقرار ہیں۔