جموں و کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی سے متعلق عرضی پر سپریم کورٹ میں 8 اگست کو ہوگی سماعت
یہ عرضی کالج ٹیچر ظہور احمد بھٹ اور سماجی کارکن خورشید احمد ملک کی طرف سے داخل کی گئی ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہ ہونے سے شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔

جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دیے جانے کا مطالبہ دن بہ دن زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اس معاملے میں ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھی، جس پر عدالت نے آئندہ 8 اگست کو سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ عدالت نے سماعت کے لیے رضامندی اسی (5 اگست) تاریخ کو ظاہر کی، جس تاریخ کو آج سے 6 سال قبل ریاستی درجہ ختم کیا گیا تھا۔ 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کر اسے مرکز کے زیر انتظام 2 خطوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
جب جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کیا گیا تھا تو مرکزی حکومت نے کہا تھا کہ مناسب وقت پر ریاستی درجہ کو بحال کیا جائے گا۔ اپوزیشن پارٹیاں اور کئی سماجی تنظیمیں ریاستی درجہ کی جلد بحالی کا مطالبہ زور و شور سے کر رہی ہیں، لیکن ابھی تک اس تعلق سے حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے، اور نہ ہی کوئی مقررہ تاریخ بتائی ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی کب ہوگی۔ اس تعلق سے عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے اور عدالت عظمیٰ میں آج عرضی دہندہ کی طرف سے سینئر وکیل گوپال شنکر نارائنن پیش ہوئے تھے۔
یہ عرضی چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی کے سامنے رکھی گئی تھی۔ گوئی نے اس بارے میں صاف لفظوں میں کہا کہ معاملہ کی سماعت 8 اگست کو ہوگی۔ کالج ٹیچر ظہور احمد بھٹ اور سماجی کارکن خورشید احمد ملک کی طرف سے داخل کی گئی ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہ ہونے سے جموں و کشمیر کے شہریوں کے بنیادی حقوق پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ یہ عرضی ریاست میں ہوئے اسمبلی انتخاب کے دوران ہی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھی، جس پر سماعت کے لیے تاریخ کا اعلان آج کیا گیا ہے۔
فی الحال جموں و کشمیر میں عمر عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حکومت چل رہی ہے۔ اس حکومت کو کچھ آزاد اراکین اسمبلی کی بھی حمایت حاصل ہے۔ جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام 2 خطوں میں جب 2019 میں تقسیم کیا گیا تھا، تو اس کے بعد ہی سپریم کورٹ میں یہ معاملہ گیا تھا۔ اس وقت عدالت نے مرکز کے فیصلے کو آئینی طور پر جائز ٹھہرایا تھا۔ بعد میں، مئی 2024 کے دوران سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی جس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر از سر نو غور کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ عدالت نے اس عرضی کو بھی نامنظور کر دیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔