ڈیپ فیک اور اے آئی کے غلط استعمال پر سپریم کورٹ میں آج اہم سماعت
ڈیپ فیک اور اے آئی کے غلط استعمال کے خلاف قواعد بنانے کی درخواست پر سپریم کورٹ آج سماعت کرے گا۔ معروف شخصیات کی جعلی ویڈیوز پر تشویش بڑھتی جا رہی ہے

سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس
نئی دہلی: سپریم کورٹ جمعہ کو ڈیپ فیک اور مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے غلط استعمال سے متعلق ایک اہم مقدمے کی سماعت کرے گا۔ یہ سماعت اُس درخواست پر ہو رہی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ڈیپ فیک اور اے آئی سے تیار ہونے والے جعلی مواد پر روک لگانے کے لیے سخت قواعد و ضوابط بنائے جائیں۔
درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ڈیپ فیک یا اے آئی سے تیار کردہ ویڈیوز اور تصاویر کی شناخت کرنے اور انہیں فوری طور پر ہٹانے کے لیے جامع ضابطے وضع کیے جائیں۔ اس درخواست میں مرکز اور الیکشن کمیشن کو بھی فریق بنایا گیا ہے تاکہ انتخابی عمل کے دوران اس ٹیکنالوجی کے ممکنہ غلط استعمال کو روکا جا سکے۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے کسی بھی فرد کی اصلی ویڈیو یا تصویر میں رد و بدل کرکے اس کی جگہ کسی اور کا چہرہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس کا استعمال کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے، غلط معلومات پھیلانے یا عوام کو گمراہ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
حالانکہ موجودہ قوانین کے تحت شکایت درج ہونے کے بعد 72 گھنٹوں کے اندر سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے ویڈیو کو ہٹایا جا سکتا ہے، لیکن اس وقت تک وہ ویڈیو لاکھوں بار شیئر ہو چکی ہوتی ہے، جس سے ناقابل تلافی نقصان ہو جاتا ہے۔
حال ہی میں کئی مشہور شخصیات اس خطرناک رجحان کا شکار ہو چکی ہیں۔ معروف اداکارہ رشمیکا مندانا کی فرضی ویڈیو وائرل ہونے پر ایک شخص کو گرفتار بھی کیا گیا، مگر اس کے بعد ان کا ایک اور ڈیپ فیک ویڈیو منظر عام پر آیا، جس میں وہ سرخ رنگ کی بکنی میں ایک آبشار کے نیچے کھڑی دکھائی گئیں۔
رشمیکا کے علاوہ عالیہ بھٹ، پرینکا چوپڑا، نورا فتحی، کرکٹر وراٹ کوہلی، سچن تندولکر، ٹاٹا گروپ کے سابق چیئرمین رتن ٹاٹا اور انفوسس کے بانی نارائن مورتی جیسے افراد کی جعلی ویڈیوز بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔
اداکارہ اور بی جے پی کی متھرا سے رکن پارلیمان ہیما مالنی نے بھی حال ہی میں اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ فنکاروں نے برسوں کی محنت سے اپنی شناخت بنائی ہے لیکن ڈیپ فیک کے ذریعے ان کی شبیہ خراب کی جا رہی ہے۔ ہیما مالنی کے مطابق یہ ویڈیوز تیزی سے پھیلتے ہیں اور متاثرہ افراد پر نفسیاتی اثر بھی ڈالتے ہیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سلسلے میں فوری اور مؤثر قانون سازی کی جائے تاکہ لوگوں کی نجی زندگی اور عزت محفوظ رہ سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔