سپریم کورٹ میں تبدیلیٔ مذہب قوانین کے خلاف عرضداشتوں پر 28 جنوری کو حتمی بحث
سپریم کورٹ نے مختلف ریاستوں کے تبدیلیٔ مذہب قوانین کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر 28 جنوری 2025 کو حتمی بحث مقرر کی ہے۔ جمعیۃ علماء ہند سمیت 13 تنظیموں نے ان قوانین کو غیر آئینی قرار دیا ہے

نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا نے مختلف ریاستوں کی جانب سے بنائے گئے تبدیلیٔ مذہب قوانین، جنہیں عام طور پر ’لو جہاد‘ قوانین کہا جاتا ہے، کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر 28 جنوری 2026 کو حتمی بحث کے لیے فریقین کو تیار رہنے کی ہدایت دی ہے۔ عدالت نے آج اس اہم آئینی معاملے کی سماعت کرتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو اعتراضات داخل کرنے کے لیے مہلت بھی دی۔
چیف جسٹس آف انڈیا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جوئے مالا باگچی پر مشتمل بنچ کے روبرو سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل آف انڈیا، جو تبدیلیٔ مذہب قوانین بنانے والی ریاستی حکومتوں کی نمائندگی کر رہے تھے، نے عرضداشتوں پر تفصیلی اعتراضات داخل کرنے کے لیے وقت طلب کیا۔ عدالت نے ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں 3 ہفتوں کے اندر اعتراضات داخل کرنے کی ہدایت دی۔
جاری کردہ پریس بیان کے مطابق، عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ سیف ضیاء سمیت دیگر وکلاء پیش ہوئے۔ دیگر تنظیموں کی نمائندگی سینئر وکلاء سی یو سنگھ اور اندرا جئے سنگھ نے کی۔ پریس بیان کے مطابق، صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے اتر پردیش، مدھیہ پردیش، اتراکھنڈ، چھتیس گڑھ، گجرات، جھارکھنڈ، ہماچل پردیش، ہریانہ، کرناٹک اور دیگر ریاستوں میں نافذ تبدیلیٔ مذہب قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اس مقدمے کی پیروی جمعیۃ علماء مہاراشٹر کی قانونی امداد کمیٹی کر رہی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کی گئی عرضداشت میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ مختلف ریاستوں کے تبدیلیٔ مذہب قوانین کا اصل مقصد ہندو اور مسلمان کے درمیان ہونے والی شادیوں کو روکنا ہے، جو آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی اور شخصی آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے۔ عرضداشت میں کہا گیا ہے کہ ان قوانین کے ذریعے افراد کے مذہب اختیار کرنے کے حق اور نجی زندگی میں مداخلت کی کوشش کی گئی ہے، جو غیر آئینی ہے۔ اس لیے عدالت کو مداخلت کرتے ہوئے ریاستوں کو ایسے قوانین بنانے سے روکنا چاہیے اور جن ریاستوں میں یہ قوانین نافذ ہیں، انہیں کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔
قابلِ ذکر ہے کہ سال 2020 میں جب ان عرضداشتوں کو سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا تو عدالت نے سماعت کے بعد ریاستوں کو نوٹس جاری کیے تھے، تاہم درخواست گزاروں کی جانب سے استدعا کے باوجود ان قوانین پر روک نہیں لگائی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں اتر پردیش سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں مذہب تبدیلی کے الزامات کے تحت سیکڑوں مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ دیگر 12 تنظیموں نے بھی ان قوانین کو چیلنج کیا ہے اور سپریم کورٹ تمام عرضداشتوں پر یکجا سماعت کر رہی ہے۔ اب 28 جنوری کو ہونے والی حتمی بحث کو اس معاملے میں فیصلہ کن مرحلہ قرار دیا جا رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔