مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانے پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے جواب طلب

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ دہلی کی جہانگیر پوری علاقہ میں انہدامی کارروائی پر سپریم کورٹ کا اسٹے برقرار، ایڈیشنل سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا جمعیۃ علماء پر فائدہ اٹھانے کا الزام غلط ہے۔

مسجد جہانگیر پوری، تصویر ویپن
مسجد جہانگیر پوری، تصویر ویپن
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: دہلی کے جہانگیر پوری، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور اتراکھنڈ ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر چلنے والے غیر قانونی بلڈوزر پر سپریم کورٹ نے آج سخت نوٹس لیتے ہوئے مرکزی حکومت سمیت ایسے تمام صوبوں سے جواب طلب کیا ہے جہاں حالیہ دنوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلایا گیا تھا۔ عدالت عظمی نے گزشتہ روز دہلی کی جہانگیر پوری میں کی گئی انہدامی کارروائی پر اسٹے برقرار رکھتے ہوئے عدالت کے اسٹے کے باوجود ڈیڑھ گھنٹے تک چلنے والی انہدامی کارروائی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ مئیر اور میونسپل کمیشنر سے جواب طلب کریں گے۔

آج سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بنچ کے جسٹس ناگیشور راؤ اور جسٹس گوَئی کے روبرو معاملے کی سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن پر بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل اور دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ روز عدالت کے حکم کے باوجود مسلمانوں کی املاک پر یک طرفہ کارروائی کی گئی۔


کپل سبل نے عدالت کو بتایا کہ وہ آج سیاست کرنے نہیں بلکہ اقلیتوں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعہ کئے جارہے مظالم کے خلاف عدالت میں پیش ہوئے ہیں، سیاست کرنے کے لئے میرے پاس بہت مواقع ہیں لیکن عدالت کو آج مداخلت کرکے مسلمانوں کی املاک کو برباد ہونے سے بچانا چاہئے اور خوف کے ماحول میں زندگی گزار رہی اقلیتوں کے دلوں سے ڈر و خوف کو ختم کرنا چاہئے۔ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کہ بلڈوزر کی کارروائی پہلے اتر پردیش میں شروع ہوئی جو مختلف ریاستوں میں پھیل چکی ہے، جس پر روک لگانا ضروری ہے۔

سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے بھی عدالت کو بتایا کہ ایک مخصوص طبقہ کو لگاتار نشانہ بنایا جا رہا ہے، قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جہانگیر پوری کی جامع مسجد کے اطراف میں سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد بھی ڈیڑھ گھنٹہ تک دکانوں اور مکانوں کا انہدام ہوتا رہا، اس درمیان متاثرین پولیس اورایم سی ڈی افسران سے مسلسل یہ کہتے رہے کہ ٹی وی چینلوں پر خبر آ رہی ہے کہ سپریم کورٹ نے انہدامی کارروائی پر فوری روک لگا دی ہے۔ لہذا انہدامی کارروائی روکی جائے مگر افسوس کہ اس مذموم سلسلہ کو انہوں نے نہیں روکا اور انہدامی کارروائی کو بدستور جاری رکھا۔


اسی درمیان حکومت کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے دو پٹیشن داخل کی گئی ہیں، عدالت کے سامنے ایک بھی متاثر نہیں آیا ہے، یہ تنظیمیں معاملے کو پیچیدہ کرنا چاہتی ہیں تاکہ اس کا سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ تشار مہتا نے عدالت کو مزید بتایا کہ غیر قانونی تعمیرات کے خلاف مذہب کی بنیاد پر کارروائی نہیں کی گئی ہے اور انہدامی کارروائی قانون کے مطابق کی گئی ہے۔ جس پر عدالت نے کہا کہ چھوٹے چھوٹے باکڑے اور ٹیبل کرسی ہٹانے کے لئے بلڈوزر کا استعمال کیوں کیا گیا؟ تشار مہتا نے اس کا گول مول جواب دیا، جس سے ججوں نے اتفاق نہیں کیا اور جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل پٹیشن کو سماعت کے لئے منظور کر لیا اور فریقین کو حکم دیا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اپنا اپنا جواب داخل کریں۔

عدالت نے ایک جانب جہاں دہلی کے جہانگیر پوری میں کی جارہی انہدامی کارروائی پر دیئے گئے اسٹے کو برقرار رکھا ہے، وہیں یہ بھی کہا کہ اب دیگر ریاستیں انہدامی کارروائی کرنے سے گریز کریں۔ ایڈوکیٹ کپل سبل نے دیگر ریاستوں میں کی جانے والی کارروائی پر اسٹے کی مانگ کی تھی۔


آج کی عدالتی کارروائی پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء حضرت مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ انہدامی کارروائی پر اسٹے برقرار رکھنے کا عدالت کا فیصلہ خوش آئند ہے لیکن سالیسٹر جنرل تشار مہتا کا جمعیۃ علماء پر یہ الزام لگانا کہ انہوں نے سیاسی اور غیر سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے پٹیشن داخل کی ہے، غلط ہے۔ جمعیۃ علماء کا ہمیشہ سے مظلوموں کو انصاف دلانے اور انسانیت کی بنیاد پر بلا تفریق خدمت کرنے کا مشن ہے، جمعیۃ علماء اسی کے تحت میدان میں آئی ہے، ہمارا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں بندوق کی نوک پر انہدامی کارروائی ہوئی ہے وہاں کے عوام ڈرے سہمے ہوئے ہیں اور متاثرین اور انصاف پسند عوام کی درخواست پر ہی جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے کیونکہ ہمارا عدلیہ پر مکمل اعتماد ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ معاملے کی اگلی سماعت پر ہمارے وکلاء متاثرین کی فہرست عدالت میں داخل کر دیں گے اور ضرورت پڑی تو متاثرین کو بھی فریق بنا دیا جائے گا۔


واضح رہے کہ دہلی سمیت مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانے کے خلاف جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن داخل کی ہے جس میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی مدعی بنے ہیں، ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ نظام الدین پاشا اور ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کے مشورہ سے پٹیشن تیار کی ہے، جسے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کبیر دیکشت نے داخل کیا ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ بھی دیگر فریقوں نے مداخلت کی عرضداشت داخل کی ہے جس پر عدالت دو ہفتوں کے بعد سماعت کرے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔