سپریم کورٹ نے ’سی اے اے‘ کے خلاف نئی عرضیوں پر مرکز سے جواب طلب کیا، معاملہ 3 ججوں کی بنچ کو بھیجنے کا اشارہ

200 سے زائد عرضیوں پر سماعت کو منظم کرنے کے لیے عدالت نے کہا کہ ایس جی کا دفتر ان عرضیوں میں مذکور چیلنجز سے متعلق معاملوں کی پوری فہرست تیار کرے گا۔

سی اے اے/سپریم کورٹ
سی اے اے/سپریم کورٹ
user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے پیر کے روز شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی اہلیت کو چیلنج پیش کرنے والی نئی عرضیوں پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اس قانون کے خلاف داخل 200 سے زائد عرضیوں کو تین ججوں کی بنچ کو بھیج سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں آئندہ سماعت کے لیے 31 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

چیف جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی بنچ نے مرکز کو سی اے اے کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی اور آسام و تریپورہ حکومت کو سی اے اے کے سلسلے میں ریاست کے خصوصی سوالات والی عرضیوں پر رد عمل درج کرنے کی بھی ہدایت دی۔ عدالت نے معاملے کو تین ججوں کی بنچ کو بھیجنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ اب اس سلسلے میں اگلی سماعت 31 اکتوبر کو ہوگی۔


مختلف عرضیوں کی نمائندگی کرنے والے وکیل نے سماعت کے دوران کہا کہ عدالت کو معاملے کی سماعت کے لیے ایک پروگرام بنانا چاہیے اور الگاؤ کی طرف بھی اشارہ کیا کیونکہ معاملے کے دو سیٹ ہیں۔ مرکز کی نمائندگی کر رہے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے اس مشورہ پر اتفاق کا اظہار کیا۔

200 سے زائد عرضیوں پر سماعت کو منظم کرنے کے لیے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ عرضیوں کو الگ الگ ڈبوں میں رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ پیشکش آسانی سے آگے بڑھ سکے اور ایسے حصوں کے متعلق پیدا ہونے والے چیلنجز تک ہی محدود رہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایس جی کا دفتر ان چیلنجز سے متعلق معاملوں کی پوری فہرست تیار کرے گا اور الگ الگ عرضیوں میں اٹھائے گئے معاملوں کی بنیاد پر انھیں الگ الگ ڈبوں میں رکھا جائے گا۔


اس میں مزید کہا گیا ہے کہ مرکز چیلنجز کے شعبوں کے سلسلے میں مناسب رد عمل درج کرے گا اور یہ پریکٹس چار ہفتہ میں کیا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے سی اے اے کے خلاف سبھی نئی عرضیوں پر بھی نوٹس جاری کیا، جو غیر مسلم تارکین وطن کو شہریت فراہم کرتا ہے، جو 31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے تھے۔

واضح رہے کہ اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے 12 دسمبر 2019 کو شہریت (ترمیمی) بل 2019 کو ایک ایکٹ میں بدلنے کی منظوری دی۔ اس کے خلاف داخل عرضیوں میں الزام عائد کیا گیا کہ بل آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ دسمبر 2019 میں عدالت عظمیٰ نے قانون کے عمل پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا اور قانون کے خلاف عرضیوں پر مرکز کو نوٹس جاری کیا تھا۔ اس نے جنوری 2020 میں مرکز سے جواب مانگا تھا، حالانکہ کووڈ-19 وبا کے سبب معاملہ عدالت کے سامنے مستقل سماعت کے لیے نہیں آ سکا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔