جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت بحالی کی درخواست پر سماعت، سپریم کورٹ نے مرکز سے 8 ہفتے میں جواب طلب کیا

سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کی درخواست پر مرکز سے 8 ہفتوں میں جواب طلب کیا، سلامتی کو ترجیح دینے کا اشارہ دیا۔ پہلگام حملے کا ذکر بھی کیا گیا

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ آف انڈیا / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو جموں و کشمیر کا مکمل ریاستی درجہ بحال کرنے سے متعلق ایک اہم درخواست پر سماعت کرتے ہوئے مرکز سے 8 ہفتوں کے اندر باضابطہ جواب طلب کیا ہے۔ یہ درخواست معروف ماہر تعلیم ظہور احمد بھٹ اور سماجی و سیاسی کارکن خورشید احمد ملک کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ ریاست کا درجہ بحال کرنے میں تاخیر جموں و کشمیر کے عوام کے آئینی حقوق کو مجروح کر رہی ہے اور وفاقیت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے، جو آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس بی آر گوئی کی سربراہی والی بنچ، جس میں جسٹس کے ونود چندرن بھی شامل ہیں، نے مرکز کی طرف سے پیش ہونے والے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے دلائل سنے۔ مہتا نے کہا کہ ریاستی درجہ بحال کرنے کے فیصلے میں کئی عوامل شامل ہیں اور حالیہ حالات غیر معمولی ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں پیش آئے پہلگام دہشت گردانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ عدالت نے بھی اس واقعے پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ کسی بھی فیصلے سے قبل سلامتی اور استحکام کو ترجیح دی جائے گی۔


سالیسٹر جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ حکومت کی سرکاری رائے پیش کرنے کے لیے 8 ہفتوں کی مہلت دی جائے۔ عدالت نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے معاملے کی اگلی سماعت 8 ہفتوں بعد مقرر کرنے کی ہدایت دی۔ مہتا نے یہ بھی کہا کہ مرکز جموں و کشمیر کو ریاستی درجہ بحال کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ سوال کیوں اٹھایا جا رہا ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ انتخابات کے بعد ریاستی درجہ بحال کرنے کا وعدہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔

درخواست میں دلیل دی گئی ہے کہ طے شدہ وقت میں ریاستی درجہ بحال نہ کرنا وفاقیت کی سنگین خلاف ورزی ہے اور اس تاخیر نے جموں و کشمیر کے عوام کو آئینی تحفظات سے محروم کر رکھا ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر عدالت کا واضح موقف آئندہ کے لیے نہایت اہم ہوگا۔

قابل ذکر ہے کہ مئی 2024 میں سپریم کورٹ نے اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواستیں مسترد کر دی تھیں جس میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ ریکارڈ میں کوئی ایسی واضح غلطی نہیں ہے جس کی بنیاد پر فیصلے پر نظرثانی کی جائے اور اس معاملے کو کھلی عدالت میں سننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔


اب ایک بار پھر ریاستی درجہ بحال کرنے کی بحث زور پکڑ چکی ہے اور عدالت کے اس تازہ اقدام کو جموں و کشمیر کی سیاسی فضا میں ایک اہم پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔سالیسٹر جنرل نے عدالت سے درخواست کی کہ حکومت کی سرکاری رائے پیش کرنے کے لیے آٹھ ہفتوں کی مہلت دی جائے۔ عدالت نے اس درخواست کو منظور کرتے ہوئے معاملے کی اگلی سماعت آٹھ ہفتوں بعد مقرر کرنے کی ہدایت دی۔ مہتا نے یہ بھی کہا کہ مرکز جموں و کشمیر کو ریاستی درجہ بحال کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، لیکن موجودہ حالات میں یہ سوال کیوں اٹھایا جا رہا ہے، یہ واضح نہیں ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ انتخابات کے بعد ریاستی درجہ بحال کرنے کا وعدہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔