شیوسینا تنازعہ پر سپریم کورٹ نے فیصلہ رکھا محفوظ، دلیلیں پیش کرتے ہوئے وکیل کپل سبل ہوئے جذباتی

کپل سبل نے گورنر کے ذریعہ ایکناتھ شندے حکومت کی تشکیل سے متعلق لیے فیصلے کو رد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت نے مداخلت نہیں کی تو ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے
ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے
user

قومی آوازبیورو

گزشتہ 9 مہینے سے مہاراشٹر میں شیوسینا پارٹی کو لے کر تنازعہ جاری ہے۔ آج اس معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت مکمل ہو گئی۔ عدالت عظمیٰ نے دونوں فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے اور سبھی منتظر ہیں کہ فیصلہ کس کے حق میں آتا ہے۔

شیوسینا تنازعہ سے متعلق سماعت کی شروعات ٹھاکرے گروپ کی طرف سے کپل سبل نے کی تھی، اور اس کے بعد ابھشیک منو سنگھوی نے دلیلیں پیش کیں۔ پھر گورنر اور شندے گروپ کے وکیل مہیش جیٹھ ملانی، ہریش سالوے اور نیرج کول کی طرف سے دلیلیں پیش کی گئیں۔ آج ایک بار پھر ٹھاکرے گروپ کی طرف سے کپل سبل نے دلیلیں پیش کیں اور اس درمیان وہ جذباتی بھی ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ اس عدالت کی تاریخ آئین اور جمہوریت کے محافظ کی شکل میں قائم رہی ہے۔ سبل نے گورنر کے ذریعہ ایکناتھ شندے حکومت کی تشکیل سے متعلق لیے فیصلے کو رد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت نے مداخلت نہیں کی تو ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔


سینئر وکیل کپل سبل نے سپریم کورٹ میں اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ ’’یہ عدلیہ کی تاریخ کا ایک ایسا معاملہ ہے جس پر جمہوریت کا مستقبل طے ہونے والا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر عدالت نے ثالثی نہیں کی تو جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی۔ ایسا اس لیے کیونکہ آنے والے وقت میں پھر کسی بھی حکومت کو ٹھہرنے نہیں دیا جائے گا۔ میں اس امید کے ساتھ اپنی دلیلیں ختم کرتا ہوں کہ آپ گورنر کے حکم کو رد کریں۔ مہاراشٹر کی 14 کروڑ عوام کی آپ سے امیدیں وابستہ ہیں۔‘‘

واضح رہے کہ اس سے قبل کپل سبل نے مہاراشٹر کے گورنر کے کردار پر سوال کھڑا کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’کبھی بھی پھوٹ سے الگ ہوا کوئی گروپ ایک گروپ ہی رہتا ہے، وہ سیاسی پارٹی نہیں ہو سکتی۔ سیاسی پارٹی کون ہے، اس کا فیصلہ انتخابی کمیشن کر سکتا ہے۔ سیاسی پارٹی کے انتخابی نشان پر ہی رکن اسمبلی منتخب ہوتے ہیں۔ لیجسلیچر (مقننہ) میں بھی سیاسی پارٹی کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ لیکن جب تک انتخابی کمیشن نے شندے گروپ کو سیاسی پارٹی کے طور پر منظوری نہیں دی تھی، تب گورنر نے کس بنیاد پر شندے گروپ کو اکثریت ثابت کرنے کا موقع دیا۔ گورنر نے منمانے طریقے سے 34 اراکین اسمبلی کو حقیقی شیوسینا مان لیا۔ گورنر کا یہ کام آئین مخالف تھا۔ گورنر صرف منظور شدہ پارٹیوں سے بات چیت کر سکتے ہیں، کسی گروپ سے نہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔