سپریم کورٹ جسٹس یشونت ورما کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی عرضی پر سماعت کے لیے راضی

موجودہ تنازعہ دہلی میں جسٹس ورما کی سرکاری رہائش گاہ پر آتشزدگی کے واقعہ کے دوران مبینہ طور پر نقد رقم برآمد ہونے کے بعد شروع ہوا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ یو این آئی</p></div>
i
user

یو این آئی

سپریم کورٹ نے پیر کو الہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس یشونت ورما کے خلاف مبینہ نقد رقم کی وصولی کے تنازعہ میں مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر فوری سماعت کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج کرائسٹ نے درخواست گزار ایڈوکیٹ میتھیوز جے نیدم پارا کی جانب سے معاملے کی فوری سماعت کے لیے کہا کہ اگر طریقہ کار کے نقائص کو دور کیا جائے تو معاملہ منگل کے لیے درج کیا جا سکتا ہے۔

ایڈوکیٹ نیدم پارا نے بھی 14 مئی کو سپریم کورٹ کے سامنے اس معاملے کا ذکر کیا تھا، لیکن عدالت نے اس کے بعد ان سے طریق کار پر عمل کرنے کو کہا تھا۔ اپنی درخواست میں نید م پارا نے جسٹس ورما کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت کی درخواست کی ہے۔ اس کے لیے درخواست میں کہا گیا ہے کہ چونکہ اندرون ملک ججوں کی تحقیقاتی کمیٹی نے انہیں (جسٹس ورماکو) اس معاملے میں قصوروار ٹھہراتے ہوئے ایک منفی رپورٹ دی ہے۔


28 مارچ کو، عدالت عظمیٰ کو ایڈوکیٹ نیدم پارا کی طرف سے دائر کی گئی اسی طرح کی ایک عرضی ملی تھی جس میں جج کے خلاف مقدمے کے اندراج کو قبل از وقت قرار دیا گیا تھا۔ عدالت نے تب کہا تھا کہ داخلی تفتیش مکمل ہونے کے بعد تمام راستے کھلے ہیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو چیف جسٹس آف انڈیا کیس درج کرنے کی ہدایت دے سکتے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ جسٹس ورما کے استعفیٰ سے انکار کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے 8 مئی کو مرکزی حکومت کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں جسٹس ورما کے خلاف مواخذے کی سفارش کی گئی تھی۔ جسٹس ورما کے ارد گرد تنازعہ 14-15 مارچ کو دہلی میں ان کی سرکاری رہائش گاہ پر آتشزدگی کے واقعہ کے دوران مبینہ طور پر نقد رقم برآمد ہونے کے بعد شروع ہوا تھا۔ اس وقت وہ دہلی ہائی کورٹ کے جج تھے۔ اس کے بعد انہیں الہ آباد ہائی کورٹ منتقل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے انہیں کسی بھی عدالتی کام سے روک دیا گیا ہے۔


قابل ذکر ہے کہ كےویراسوامی بنام یونین آف انڈیا (1991) میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا کی پیشگی اجازت کے بغیر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کے خلاف کوئی فوجداری مقدمہ درج نہیں کیا جا سکتا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔