سنی وقف بورڈ کو مسجد کے لئے ’5 ایکڑ زمین‘ قبول نہیں کرنی چاہیے: ارشد مدنی

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ’’نظر ثانی عرضی کے سلسلہ میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں لیا جائے گا، جو آج شام منعقد ہونے جا رہی ہے۔ اس میں جو بھی فیصلہ ہوگا وہ آپ سبھی کو پتہ چل جائے گا‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

ایشلن میتھیو

جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ ارشد مدنی کا کہنا ہے کہ اتر پردیش سنی وقف بورڈ کو مسجد کے لئے ایودھیا میں جو 5 ایکڑ زمین دینے کی پیش کش کی گئی ہے، اسے قبول نہیں کرنا چاہیے۔ مولانا ارشد مدنی جمعرات کے روز دہلی میں واقع جمعیۃ علماء ہند (الف) کے دفتر پر صحافیوں سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا، ’’یہ زمین کا معاملہ نہیں تھا بلکہ امت مسلمہ 70 سالوں سے اپنے حقوق کی لڑائی لڑ رہی تھی۔‘‘

مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ بابری مسجد کے متعلق سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے اس کے حوالہ سے نظر ثانی کی عرضی داخل کی جائے یا نہیں اس پر فیصلہ تاحال نہیں لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ فیصلہ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں لیا جائے گا، جو آج شام کو منعقد ہونے جا رہی ہے۔ اس کے بعد جو بھی فیصلہ ہوگا وہ سبھی کو پتہ چل جائے گا۔‘‘


مولانا مدنی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ کی مجلس عاملہ ملک بھر کے 21 ارکان پر مشتمل ہے اور ان تمام کو دہلی طلب کیا گیا ہے۔ ارکان مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے وکلاء سے بھی رابطہ میں ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز

انہوں نے کہا، ’’یہ معاملہ صرف جمعیۃ سے وابستہ نہیں ہے بلکہ یہ اس سے پورا مسلم طبقہ وابستہ ہے‘‘ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جس طرح کا فیصلہ سنایا ہے وہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ’’ہم یہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ایسا فیصلہ کیوں سنایا گیا اور ایسا ہم ہی نہیں بلکہ ملک کے متعدد ماہر قانون، وکلاء اور جج حضرات بھی کہہ رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بنچ کے ججوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر کسی مندر کو منہدم کر کے نہیں کی گئی تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسجد کا شہید کیا جانا غیر قانونی تھا اور ایسا کرنے والوں نے جرم کا ارتکاب کیا۔ لیکن اس کے باوجود زمین کو ہندوؤں کے حوالہ کر دیا۔ ہمیں یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ ایسا فیصلہ کیوں کیا گیا ہے!‘‘

کیا وہ اس معاملہ میں بین الاقوامی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں اس سوال کے جواب میں مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ یہ سر زمین ہند کی اعلی ترین عدالت ہے۔ ہم کسی اور عدالت سے رجوع نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ مقدمہ صرف مسجد کا مقدمہ نہیں تھا بلکہ مسلمانوں کے حقوق کا مقدمہ تھا۔ ایک مسجد ہمیشہ مسجد ہی رہتی ہے، اگرچہ اس میں کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا نہیں۔‘‘


واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے بابری مسجد-رام جنم بھومی اراضی ملکیت مقدمہ میں 9 نومبر کو فیصلہ سناتے ہوئے ایودھیا کی 2.77 ایکڑ زمین ہندو دیوتا رام للا کو سونپنے کا حکم سنایا ہے۔ رام للا اس مقدمہ کے تین فریقوں میں سے ایک تھے۔ پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ نے مرکزی حکومت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ سنی وقف بورڈ کو ایودھیا کے ہی کسی نمایاں مقام پر مسجد تعمیر کرنے کے لئے 5 ایکڑ زمین کا ٹکڑا فراہم کرے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Nov 2019, 6:00 PM