بابری مسجد مقدمہ: کیا ثالثی پینل کے مشورے پر سپریم کورٹ غور کرے گا؟

ایودھیا معاملہ میں ثالثی پینل کے ذریعہ سمجھوتہ کی تجویز پیش کیے جانے کے بعد یو پی سنی وقف بورڈ کو اس بات کا پورا یقین نہیں کہ عدالت عظمیٰ اس تجویز کو مان ہی لے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

ایودھیا واقعہ بابری مسجد-رام جنم بھومی اراضی تنازعہ میں عدالتی سماعت مکمل ہونے کے بعد جب ملک کی نگاہیںسپریم کورٹ کے فیصلے پر ٹکی ہوئی ہیں، ایسے میں یو پی سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی نے ایک عرضی داخل کرکے معاملے کو اثرانداز کرنے کی کوشش کی ہے۔ یو پی سنی وقف بورڈ کے وکیل شاہد رضوی کا کہنا ہے کہ اس معاملے میں ایک تجویز ثالثی ٹیم کے سامنے رکھا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سنی وقف بورڈ اپنا کیس واپس لے لے گا بشرطیکہ اس کے کچھ مطالبات پورے کر دیے جائیں۔ لیکن رضوی ساتھ ہی کہتے ہیں کہ انھیں بھروسہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ ان کی عرضی کو منظور کر ہی لے گا۔

رضوی کا کہنا ہے کہ اس تجویز پر کئی ہندو فریق کے بھی دستخط ہیں۔ اس تجویز کو یو پی سنی وقف بورڈ نے ثالثی کمیٹی کے سامنے پیش کیا ہے جسے کمیٹی نے منگل کی شام سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے پاس جمع کرا دیا ہے۔ لیکن ایسے بھی کئی ہندو فریق ہیں جنھوں نے اس پر دستخط نہیں کیے ہیں۔


شاہد رضوی نے بتایا کہ ’’پوری تجویز کے بارے میں ہم نہیں بتا سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایسی تجیز ہے جس سے دونوں فریق خوش ہوں گے۔ میں اس معاملے کو سلجھانے کے لیے 2017 سے کوشش کر رہا ہوں، اور یہ سپریم کورٹ میں چل رہے کیس کے باہر نہیں ہے۔ جب بھی کوئی دیوانی معاملہ ہوتا ہے تو ہمیشہ ثالثی کے ذریعہ کیس کو سلجھانے کی کوشش ہوتی ہے جس میں سبھی فریق مطمئن ہوتے ہیں۔‘‘


رضوی نے یہ بھی بتایا کہ ’’سپریم کورٹ میں جو بھی بحث ہوئی، وہ اپنی جگہ رہے گی۔ عدالت کے باہر جب آمنے سامنےبیٹھ کر بات ہوتی ہے تو قانون کی پیچیدگیاں نہیں دیکھی جاتیں۔ کئی مواقع پر ایودھیا معاملے میں ثالثی کی کوشش ہوئی ہے۔ 1991 میں بھی کوشش ہوئی تھی لیکن کبھی نتیجہ نہیں نکلا۔‘‘

لیکن اس تجویز پر سبھی ہندو فریق متفق نظر نہیں آتے۔ لیڈر سبھاش چندر بوس کی پڑپودی راج شری چودھری کے وکیل روی رندن سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’ہم اس تجویز کا حصہ نہیں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ہی اس کا فیصلہ کرے۔‘‘ راج شری چودھری خود کا اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کا اصلی نمائندہ بتاتی ہیں۔


اس کے علاوہ ایودھیا معاملے میں 1885 میں پہلا کیس داخل کرنے والے نرموہی اکھاڑا نے اس تجویز پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ جب شاہد رضوی سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اس معاملے میں تین اہم فریق ہیں، جن میں سے دو نے دستخط نہیں کیے ہیں، اور ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر وہ بھی اس پر متفق ہو جائیں۔ دھیان رہے کہ معاملے کے تین اہم فریق میں نرموہی اکھاڑا، رام جنم بھومی نیاس، اور یو پی سنی وقف بورڈ ہیں۔

لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ نرموہی نروانی، جس کے پاس ہنومان گدی کا مینجمنٹ ہے، اس نے اس تجویز پر دستخط کیے ہیں۔ لیکن وہ ایودھیا کیس میں اہم فریق نہیں ہے۔ لیکن خود کو ہندو مہاسبھا کا قومی صدر ہونے کا دعویٰ کرنے والے ایک دیگر فریق چندر پرکاش کوشک نے اس تجویز پر دستخط کیا ہے۔ ان کی طرف سے وکیل ورون سنہا عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ لیکن سنہا کے ساتھ کام کرنے والے امت کا کہنا ہے کہ اس تجویز سے کچھ ھاصل نہیں ہونے والا، اور یہ معاملے سے دھیان بھٹکانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ایک دیگر فریق رام جنم استھان پنرودھار سمیتی نے بھی اس تجویز پر دستخط کیا ہے۔


ذرائع کے مطابق تجویز میں ایودھیا میں راممندر بنائے جانے کے مطالبہ کے ساتھ ہی 1991 کے اس قانون کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں سبھی پوجا کے مقامات کی 15 اگست 1947 جیسی حالت بنائے رکھنے کی بات ہے۔ اس کے علاوہ ایودھیا کی سبھی مساجد کو آباد کرنے، اور سب سے اہم بات کسی متبادل مقام پر مسجد تعمیر کرانے کا مطالبہ شامل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Oct 2019, 3:51 PM