مدھیہ پردیش میں انسانیت شرمسار

قبائلی بچوں سے نہ صرف ہاسٹل کی صاف صفائی کرائی جاتی ہے بلکہ کھانا بھی بنوایا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہاسٹل ملازم بچوں کے کھانے میں تھوک کر کھانا دیتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

قبائلیوں و قبائلی علاقے کے بچوں کی ترقی اور اصل دھارے سے جوڑنے کی بات کرنے والی مدھیہ پردیش کی شیو راج حکومت کا اصلی چہرہ آج اس وقت سامنے آ گیا جب ایک ہاسٹل میں بچوں کے استحصال کا انکشاف ہوا۔ یہ معاملہ ریاست کے گونا علاقے کا ہے جہاں بی جے پی حکومت کی ناک کے نیچے انسانیت شرمسار ہو رہی ہے۔ یہاں قبائلیوں کے ایک ہاسٹل میں بچوں کے استحصال کی خبر سننے کے بعد جب ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ حقیقت حال کا پتہ کرنے پہنچے تو بچوں نے اپنی حالت زار ان کے سامنے کھول کر رکھ دی۔

اس سلسلے میں خبر رساں ایجنسی اے این آئی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بچوں سے روٹی بنوائی جاتی تھی اور جب اس کی خبر گونا کے کلکٹر راجیش جین کو ملی تو انھوں نے ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ (اے ڈی ایم) کو سچائی کا پتہ لگانے کے لیے بھیجا۔ کلکٹر کا کہنا ہے کہ ’’اے ڈی ایم کو جب وہاں بھیجا گیا تو انھوں نے بچوں کے استحصال کی خبر کو درست پایا۔ اس کے بعد ہاسٹل کے وارڈن کو ہٹا دیا گیا ہے۔‘‘

ایک ویب سائٹ نے تو اس سلسلے میں یہاں تک لکھا ہے کہ بچوں کے کھانے میں ہاسٹل کا ملازم تھوکتا تھا۔ اس سلسلے میں بچوں نے کلکٹر کو بتایا کہ ہاسٹل کا ملازم پہلے ان کے کھانے میں تھوکتا ہے پھر انھیں کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ قبائلیوں کی ترقی اور بہتر تعلیم کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرنے والی بی جے پی حکومت کی یہ سچائی ان کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہے۔

جہاں تک بچوں کے ذہنی اور جسمانی استحصال کا معاملہ ہے، خبروں کے مطابق بچوں سے صرف روٹی ہی نہیں بنوائی جاتی ہے بلکہ ان سے ہاسٹل کی صاف صفائی بھی کروائی جاتی ہے۔ ان بچوں سے تو بیت الخلاء تک کی صفائی کرائی جاتی ہے۔ اس پورے معاملے کے سامنے آنے کے بعد کلکٹر نے جانچ کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ کچھ اسی طرح کا معاملہ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے ہی دھار ضلع میں منظر عام پر آ چکا ہے۔ وہاں قبائلی گرلس ہاسٹل اُدیاپورا کی طالبات نے وہاں کی سپرنٹنڈنٹ پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے ناشتہ اور بھر پیٹ کھانا نہ دینے کی بات کہی تھی۔ ساتھ ہی بچیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ انھیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مقامی لوگوں نے کلکٹر سے تحریری شکایت کی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Mar 2018, 6:29 PM