اے ایم یو میں اب ’سرسوتی مندر‘ بنانے کا مطالبہ، مخالفت میں اٹھی آوازیں

اے ایم یو طلبا یونین کے سابق صدر فیض الحسن کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میں کسی بھی طرح کا مندر تعمیر نہیں ہو سکتا اور اگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی ایسا چاہیں تو ممکن نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں ایک نیا تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ طلبا لیڈر اجے سنگھ نے اے ایم یو کیمپس میں سرسوتی مندر بنانے کا مطالبہ کیا ہے جس کے بعد ایک بار پھر کیمپس کا ماحول کشیدہ ہو گیا ہے۔ اجے سنگھ بی جے پی رکن اسمبلی دلویر سنگھ کے پوتے ہیں اور وہ اے ایم یو میں ایل ایل ایم کے طالب علم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیمپس میں مندر کی کمی محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ ہندو طلبا یہاں تعلیم تو حاصل کرتے ہیں لیکن پوجا کے لیے کوئی مندر نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ماں سرسوتی شکشا یعنی تعلیم کی دیوی ہیں اس لیے یونیورسٹی کیمپس میں ان کا مندر بنائے جانے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے۔ اجے سنگھ نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو باضابطہ خط لکھ کر اپنا یہ مطالبہ سامنے رکھا ہے۔

اجے سنگھ کے مطالبہ کے پیش نظر یونیورسٹی کیمپس میں مخالفت کی آوازیں بھی زور و شور سے اٹھنے لگی ہیں۔ اے ایم یو طلبا یونین کے سابق صدر فیض الحسن کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کیمپس میں کسی بھی طرح کا مندر تعمیر نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے مطابق کسی بھی مرکزی تعلیمی ادارہ میں نئی مذہبی تعمیرات قابل قبول نہیں ہے۔ فیض الحسن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کوئی ہاسٹل، ہال اور لائبریری کے سامنے مندر بنانے کا مطالبہ کرے تو ایسا ممکن ہی نہیں ہے، یہ متنازعہ مطالبہ ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ اے ایم یو کے وائس چانسلر اور پوری یونیورسٹی بھی مندر تعمیر کرنے کی کوشش میں مصروف ہو جائے تو ایسا ممکن نہیں ہو پائے گا۔

دوسری طرف وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی قومی اقلیتی تعلیمی نگرانی کمیٹی کے رکن ڈاکٹر مانویندر پرتاپ سنگھ نے اس تعلق سے میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ اے ایم یو ایک سیکولر یونیورسٹی ہے جہاں پر ہزاروں ہندو طلبا پڑھتے ہیں، اس لیے وہاں ایک مندر ہونا ہی چاہیے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’پورے کیمپس میں ایک بھی مندر نہیں ہے۔ اگر 100 فیصد مسلم آبادی والے عرب ملک میں مندر بنا سکتا ہے تو اے ایم یو میں کیوں نہیں؟‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Dec 2018, 11:09 AM