کرناٹک: ہاویری میں مسجد پر پتھراؤ کی خبر، دو طبقات میں تصادم کے بعد حالات کشیدہ، پولیس سیکورٹی سخت

کرناٹک میں دو طبقات کے لوگوں میں تصادم کی حالت پیدا ہو گئی ہے، پولیس نے سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں اور حالات کو کنٹرول میں کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>کرناٹک کے ہاویری ضلع واقع مسجد</p></div>

کرناٹک کے ہاویری ضلع واقع مسجد

user

قومی آوازبیورو

کرناٹک کے ہاویری ضلع میں منگل کے روز ایک مسجد پر پتھراؤ کا واقعہ پیش آیا ہے۔ اس خبر کے پھیلنے کے بعد دو طبقات کے لوگ آپس میں متصادم ہو گئے اور علاقے میں کشیدگی والے حالات پیدا ہو گئے۔ الزام ہے کہ ہندو افراد کے ذریعہ مسجد میں پتھراؤ کیا گیا ہے۔ پولیس نے سیکورٹی کے وسیع انتظام کیے ہیں اور حالات کو قابو میں کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ مسجد پر پتھراؤ کرنے والوں نے الزام لگایا ہے کہ جب وہ سانگولی راینا (برطانوی حکومت سے لڑنے والے ایک شہید) کا جلوس نکال رہے تھے تو مسلمانوں کے ایک طبقہ نے ان پر پتھراؤ کیا اور جلوس کو رکنہ انداز کیا۔ گزشتہ ہفتہ پروگرام میں یہ پتھراؤ کا واقعہ پیش آیا تھا۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق جب ان کی ریلی رخنہ انداز ہوئی تھی تو اس وقت بھی ہندو طبقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں نے مسجد، مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا اور ان کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔ مقامی لوگوں نے کہا کہ ہندو تنظیم سے جڑے کارکنان نے مقامی اردو اسکول پر پتھراؤ کیا، طلبا اپنے کلاس سے نکل کر باہر بھاگ گئے اور مدد کے لیے روتے ہوئے سڑکوں پر کھڑے ہو گئے۔


میڈیا رپورٹس کے مطابق فسادیوں نے ایک آٹو ڈرائیور پر بھی حملہ کیا تھا اور اس کی گاڑی کو توڑ دیا تھا۔ کشیدگی بڑھنے کے ساتھ پولیس نے سیکورٹی کے سخت انتظام کیے ہیں اور ان علاقوں میں پولیس اہلکاروں کو مقرر کیا ہے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ وزیر زراعت بی سی پاٹل نے واقعہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سنگولی راینا کی ریلی کے دوران جس نے بھی پتھراؤ کیا وہ غلط ہے اور پولیس شکایت درج کر کے کارروائی شروع کرے گی۔ حالانکہ انھوں نے کہا کہ منگل کے روز ہوئے پتھراؤ واقعہ کی انھیں جانکاری نہیں ہے۔

کانگریس لیڈر سدارمیا نے اس واقعہ کے تعلق سے کہا کہ تشدد کے بغیر تصادم کو خیر سگالانہ انداز میں نمٹایا جانا چاہیے۔ پولیس کو امن بنائے رکھنی چاہیے اور جو بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اسے سزا دی جانی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔