ریاستوں کو فنڈ کے لیے مقدمہ دائر کرنا پڑے، یہ وفاقی نظام کے لیے ٹھیک نہیں: ایم کے اسٹالین

وزیرِ اعظم کی صدارت میں نیتی آیوگ کی میٹنگ میں ایم کے اسٹالین نے مرکز پر فنڈ روکنے کا الزام لگایا۔ جبکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے پانی کی قلت پر ہریانہ کو پانی دینے کی مخالفت کی

<div class="paragraphs"><p>تصویر سوشل میڈیا</p></div>

تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی میں ہفتے کے روز وزیرِ اعظم نریندر مودی کی صدارت میں نیتی آیوگ کی 10ویں گورننگ کونسل کی میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی۔ اس موقع پر وزیراعظم نے تمام ریاستوں سے ’ترقی یافتہ ہندوستان‘ کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے باہمی تعاون کی اپیل کی، مگر اس اجلاس میں مرکز اور ریاستوں کے درمیان کئی اہم مسائل بھی سامنے آئے۔

تمل ناڈو کے وزیرِ اعلیٰ اور ڈی ایم کے کے سربراہ ایم کے اسٹالین نے مرکزی حکومت پر سخت تنقید کی اور کہا کہ ریاستوں کو اپنے واجب الادا فنڈز حاصل کرنے کے لیے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ رہا ہے، جو کسی بھی وفاقی جمہوریت کے لیے مناسب نہیں۔ اسٹالین نے کہا کہ ’’یہ ناانصافی ہے کہ ہمیں اپنے حق کے پیسے کے لیے لڑنا یا مقدمہ دائر کرنا پڑے۔ یہ ریاستوں اور ملک دونوں کی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہے۔‘‘

ڈی ایم کے حکومت نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں مرکز کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2,000 کروڑ روپے سے زائد کی رقم مرکز نے روک لی ہے۔ اس کے پیچھے نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں شامل ’تثلیثی زبان پالیسی‘ کی مخالفت کو وجہ بتایا جا رہا ہے، جس کی تمل ناڈو نے شدید مخالفت کی تھی۔


اسٹالین نے مزید کہا کہ مرکز کو چاہیے کہ وہ تقسیم شدہ ٹیکس محصولات میں ریاستوں کا حصہ بڑھائے۔ انہوں نے کہا کہ 15ویں فنانس کمیشن نے 41 فیصد محصولات ریاستوں کو دینے کی سفارش کی تھی، مگر پچھلے چار سالوں میں صرف 33.16 فیصد ہی دیا گیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس میں اضافہ کر کے کم از کم 50 فیصد کیا جائے۔

دوسری طرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے پانی کی قلت کے مسئلے پر ہرِیانہ کو پانی دینے کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ رَوی، بیاس اور ستلج جیسی اہم ندیاں پہلے ہی پانی کی کمی سے دوچار ہیں اور ایسے میں پانی کو خسارے والے علاقوں میں بھیجنا نقصان دہ ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔