'او ری گوریّا، میرے گھر بھی آ جانا رے'، چھوٹی سی اس چڑیا کا تحفظ ہمارے لیے اہمیت کا حامل کیوں؟

گوریّا یعنی ایک چھوٹی سی چڑیا کہیں ہماری یاد داشت میں تو سمٹ کر نہیں رہ جائے گی؟ یہ سوال طویل مدت سے اٹھ رہے ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں چلی بیداری مہم گوریّا کی واپسی کی امیدیں باندھنے والی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>

تصویر آئی اے این ایس

user

سنجے کمار

چھوٹی لیکن انتہائی خوبصورت چڑیا گوریّا کا ذکر آتے ہی بچپن یاد آ جاتا ہے۔ ہماری زندگی کا تنہا پرندہ جسے ذرا سی کوشش کے بعد بچہ بھی پکڑ لیتا، اس کے ساتھ کھیلتا اور پھر اڑا دیتا۔ ہم نے کتنی ہی دوپہری بانس کی ڈلیا میں رسی باندھ کر، اس کے نیچے دانے چھڑک کر دور بیٹھیں گوریا کو نہارتے اور پکڑتے ہوئے گزاری ہے۔ پھر انھیں ہوا میں اڑا کر حیرت انگیز اطمینان کا احساس بھی لیا ہے۔ کئی بار اس کے پنکھوں پر رنگ ڈال دیتے اور پھر دور سے دیکھ کر کہتے 'دیکھو، وہ میری والی گوریا ہے!' وہ گوریا اب ہمارے آس پاس اس طرح دکھائی نہیں دیتی۔ اور اگر کہیں نظر آ بھی جاتی ہے تو ہم بس خوش ہو کر اسے دیکھنے، اس کی تصویر اتارنے لگتے ہیں۔ لیکن کیا ہمارے ذہن میں کہیں یہ سوال بھی کبھی اٹھتا ہے کہ ہماری نئی نسل اس تفریح سے محروم کیوں ہے؟ وہ قصوں میں سمٹتی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اب یہ بات بھی پرانی ہو چکی ہے کہ کبھی اس کا ٹھکانہ ہمارے گھر آنگن ہوا کرتے تھے۔ لیکن ماحولیات کو ٹھینگا دِکھا کر، کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل ہوتے شہر اور پھر گاؤں تک پہنچی اس بیماری نے انھیں ہم سے دور کر دیا۔

عموماً گوریا ہاؤس اسپیرو، اسپینش اسپیرو، سنڈ اسپیرو، رسیٹ اسپیرو، ڈیڈ سی اسپیرو اور ٹری اسپیرو نام سے جانی پہچانی جاتی ہے۔ ان میں ہاؤس اسپیرو کو گھریلو گوریا کہا جاتا ہے۔ یہ گاؤں اور شہروں میں پائی جاتی ہیں۔ انسان نے جہاں بھی گھر بنایا، دیر سویر گوریا کا جوڑا وہاں رہنے پہنچ ہی جاتا۔ یہ چھوٹے پاستہ فیملی کا پرندہ ہے۔ لیکن فکر انگیز یہ ہے کہ دنیا بھر میں گھر آنگن میں چہکنے پھدکنے والی اس چھوٹی سی چڑیا کی آبادی میں فکر انگیز گراوٹ آئی ہے۔ 'انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اینڈ اَدرس' کے مطابق گوریا کی کئی نسلوں کی آبادی میں گراوٹ کے سبب 'بحران' یا 'کمزور' کی شکل میں تقسیم کی گئی ہے۔


گوریا کی آبادی میں کمی کے پیچھے کئی اسباب ہیں جن پر لگاتار تحقیق بھی ہو رہی ہیں۔ بڑھتا رہائشی بحران، غذا کی کمی، کھیتوں میں جراثیم کش کا کثرت سے استعمال، انسانی طرز زندگی میں تبدیلی، ماحولیاتی تبدیلی، آلودگی، شکار، بیماری اور موبائل فون ٹاور سے نکلنے والے ریڈیشن کو اس کے لیے خصوصی طور پر ذمہ دار بتایا جاتا رہا ہے۔ بڑھتے رہائشی بحران تو سب سے بڑی وجہ بن کر ابھری ہے۔ عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والی نئی تکنیک، میٹیریل اور گھروں کے ڈیزائن نے بھی اس میں اہم کردار نبھایا ہے۔ بات صرف اتنی سی نہیں ہے کہ اب گھروں میں کھپریل اور پھوس کا استعمال نہیں ہوتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اب گھروں میں ویسی کوئی جگہ ہی نہیں بچی جہاں یہ اپنا ٹھکانہ بنا سکے۔ ہم نے برآمدے بنائے بھی تو وہاں کبوتروں کو دور رکھنے کے لیے جالی لگوا دی یا شیشے لگا دیئے۔ نتیجتاً گوریا کا راستہ بھی رک گیا اور اس کی موجودگی متاثر ہوئی۔ کئی بار تو اندر آنے کے لیے یہ اس شیشے میں چونچ مار مار کر زخمی ہوتی بھی نظر آئی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شہرکاری، زرعی اور صنعتی ترقی نے اس کی رہائش ختم کر دی ہیں۔ کھلے میں غذا کی کمی، کھیتوں میں جراثیم کش کا بے تحاشہ استعمال بھی ان کا دشمن ثابت ہوا ہے۔ جراثیم کش کے استعمال کا سیدھا اثر یہ ہوا کہ اس نے بالواسطہ طور سے ان کے خوردنی ذرائع کی دستیابی گھٹائی اور ان کا کھانا ان سے دور کیا۔ کئی بار تو ایسے کھیتوں میں گوریا مردہ پائی گئی جہاں اس نے کھیت سے کچھ کھایا تھا اور اس پر جراثیم کش کا اثر گہرا تھا۔ شہروں میں جھرمٹ والے پیڑوں، لیموں، انار وغیرہ کے درختوں کی گھٹتی تعداد اور صوتی آلودگی کا بھی اثر پڑا۔ گوریا انسانوں کی کئی طرح کی نئی بیماریوں سے بھی متاثر ہوئی ہیں جن میں ایوین انفلوئنزا، ویسٹ نائل وائرس اور سالمونولوسس خاص ہیں۔


گوریا کے لیے ماحولیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ دراصل گوریا درجہ حرارت اور بارش میں تبدیلی کے تئیں حساس ہوتی ہیں اور ان کی نشو و نما اور رہائش کے پیٹرن کو موسمی حادثات سے رخنہ انداز کیا جا سکتا ہے۔ گوریا تحفظ سے جڑے لوگوں کی نظر میں تو موبائل فون ٹاور سے نکلنے والا ریڈیشن گوریا کے لیے مہلک ثابت ہوا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اسٹیٹ آف انڈینس برڈس 2020 رینج، ٹرینڈس اور کنزرویشن اسٹیٹرس اس سے انکار کرتا ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "گوریا کی تعداد میں کمی کی وجوہات میں موبائل فون ٹاور کی جو بات کہی جاتی ہے، اسے لے کر کوئی پختہ ثبوت ابھی تک نہیں ہیں جس سے یہ پتہ چلے کہ ریڈیشن سے گوریا کی افزائش پر اثر پڑتا ہو۔" لیکن اسی رپورٹ میں گوریا کی تعداد میں کمی کے اسباب میں غذا، خصوصاً کیڑوں کی ہو رہی زبردست کمی اور جراثیم کش کے استعمال کو اہم بتایا گیا ہے۔

گزشتہ کچھ سالوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ملک کے چھ میٹرو شہروں بنگلورو، چنئی، دہلی، حیدر آباد، کولکاتا اور ممبئی میں ان کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے، لیکن باقی کے شہروں میں اس کی تعداد مستحکم ہے۔ یعنی جہاں جتنی ترقی ہوئی، گوریا کو اتنا ہی نقصان ہوا۔ ایسے میں ہم یہ تو ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان میں یہ کمیاب نہیں ہے، لیکن یہ کوئی مغالطہ پالنے جیسی بات بھی نہیں۔ حالات اتنے بھی ٹھیک نہیں ہیں کہ خوش ہوا جائے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گزشتہ پچیس سالوں سے گوریا کی تعداد ہندوستان میں مستحکم بنی ہوئی ہے۔ اچھی بات ہے کہ اس کے تحفظ کے تئیں بیداری مہم کو رفتار دیتے ہوئے دہلی حکومت نے 2012 اور بہار حکومت نے 2013 میں گوریا کو سرکاری پرندہ قرار دے رکھا ہے۔


ہر سال 20 مارچ کو 'عالمی یومِ گوریّا' کے بہانے اس کے تحفظ کا سوال اٹھتا ہے، لیکن پھر ایسا کچھ منظم طریقے سے نہیں ہوتا جو اثردار ہو۔ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس کا تحفظ اتنا ضروری کیوں ہے؟ دراصل گوریا اگر انسان کی دوست ہے تو کسانوں کی مددگار بھی ہے۔ گوریا انسان کے ساتھ رہتے ہوئے انھیں الگ طرح کا اطمینان و سکون دیتی ہیں۔ کھیت کھلیان، پھل پھول اور سبزی وغیرہ میں لگنے والے کیڑے مکوڑوں سے فصلوں کی حفاظت کرتی ہے۔ لیکن اسی انسان نے اس کی اہمیت نہیں سمجھی۔ بس، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ان کی تصویر دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں یا آہیں بھرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔