مودی کے ’گھوٹالہ ماڈل‘ سے ہندوستان کو بچائیں!

نیرو مودی ان نوجوان گجراتیوں کی فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جن میں سے ہر ایک نے ٹیکس دہندگان کا ہزاروں روپیہ کھایا ہے۔ اس ’گجرات ماڈل‘ کو پورے ہندوستان میں پہنچنے سے وزیر اعظم کو روکنا چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آکار پٹیل

نیرو مودی کا نام بھی ہرشد مہتا، ہتین دلال، جتن مہتا اورکیتن پارکھ جیسے گجرات سے تعلق رکھنے والے تیز طرار نوجوان لوگوں میں جڑ گیا ہے جنھوں نے گزشتہ کچھ سالوں میں ٹیکس دینے والے لوگوں کے کروڑوں روپے غبن کر لیے ہیں۔ میں ٹیکس دینے والوں کا تذکرہ اس لیے کر رہا ہوں کیونکہ پیسے بھلے ہی پبلک بینکوں سے غبن کیے گئے ہوں لیکن وہ عوام کے پیسے تھے۔

22 فروری کو پنجاب نیشنل بینک نے کہا کہ وہ 163 روپے قیمت پر اپنے شیئر فروخت کر کے 5500 کروڑ روپے اکٹھا کرے گا۔ فی الحال اس کے شیئر کی مارکیٹ قیمت 113 روپے ہے اور وہ بھی لگاتارگر رہی ہے۔ اور اس لیے آپ اور ہم ہر شیئر پر 50 روپے کا پریمیم دے رہے ہیں کیونکہ ہم نے ایک نااہل بینک میں سرمایہ کیا ہے جس نے ہمارے پیسوں کا غبن ہونے دیا۔

ہمیں یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ جیسے ہی یہ اضافی پیسے آ جائیں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ یہ یقیناً ایک بے کار بات ہے۔ ہمارے ساتھ پہلے جو کئی بار ہو چکا ہے اس بار بھی وہی ہونے والا ہے۔ ہرشد مہتا جسے ہم اسٹاک گھوٹالے کے نام سے جانتے ہیں وہ بھی ایک بینک گھوٹالہ ہی تھا جس طرح نیرو مودی اور جتن مہتا نے کیا ہے۔

دو صحافیوں دیواشیش بسو اور سچیتا دلال نے ایک کتاب لکھی ہے ’دی اسکیم: فروم ہرشد مہتا ٹو کیتن پارکھ‘۔ اسے انھوں نے ایک نیا عنوان دیا ہے اور کچھ ترمیم کیا ہے اور نام دیا ہے ’آلسو انکلیوڈس جے پی سی فیاسکو اینڈ گلوبل ٹرسٹ بینک اسکیم‘۔ مجھے ڈر ہے کہ انھیں یہ ترمیم کہیں لگاتار جاری رکھنی نہ پڑے کیونکہ ہمارے لٹے ہوئے ملک میں بینک گھوٹالے کی کوئی کمی نہیں ہے۔

ہرشد مہتا کے معاملے میں بسو اور دلال نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’’گھوٹالہ اتنا بڑا تھا کہ کئی بار آپ سمجھ بھی کھو دیتے ہیں۔ ہیلتھ بجٹ، ایجوکیشن بجٹ سے بڑے ان گھوٹالوں کو دیکھ کر ایسا لگا کہ کروڑوں روپے ان کے لیے صرف کچھ کھلے پیسے ہیں۔ تقریباً 6 مہینوں کی بے تحاشہ اور عجیب سے اضافے کے بعد جیسے ہی پورے ملک میں شیئر کی قیمتیں اچانک سے گرنے لگیں تو بوفورس سے 50 گنا بڑا گھوٹالہ متوسط طبقہ کے گھروں میں ہوا کے جھونکوں کی طرح گھس گیا۔‘‘

مہتا نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے لیے سیکوریٹیز خریدی،لیکن اس کی ادائیگی نہیں کی بلکہ اس پیسے کا استعمال سٹہ بازی میں کرتے رہے۔ بسو اور دلال نے لکھا ہے کہ ’’اس سازش میں اس کے ساتھ اے این زیڈ گرنڈلیز بینک اور ریزرو بینک آف انڈیا کی مکمل ملکیت والا نیشنل ہاؤسنگ بینک بھی شامل تھا۔ دونوں نے آزادانہ طور پر ہرشد کے اکاؤنٹ میں چیک جمع کرائے۔ ہرشد مہتا نے آر بی آئی کے سامنے ایس بی آئی کےاکاؤنٹ کو اپنا دکھاتے ہوئے اس سے جعلی خرید فروخت دکھا کر اپنے خود کے اکاؤنٹ میں اس کے عوض پیسے کا لین دین کرتے رہے۔

اب جب کہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک بیماری ہے، تو کسی بھی بینک کے ایک یا دو ملازمین پر انگلی اٹھانا بے معنی ہے۔ اس کا تنہا اور واحد علاج یہ ہے کہ حکومت یہ یقینی بنائے کہ قانون کی حکمرانی ہو۔ کسی ایک خاص معاملے کے لیے نہیں بلکہ ٹرانسپورٹیشن قوانین کی خلاف ورزی سے لے کر قتل تک کے معاملوں میں سبھی جگہ قانون کی حکمرانی ہو۔

مجرمانہ نظام انصاف سرگرم عمل ہونا چاہیے۔ ریاست کو بغیر کسی استثنائیت کے ہمیشہ مناسب عمل کو عزت بخشتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔ یہ بہت زیادہ مشکل کام ہے، لیکن اس کا کوئی دوسرا علاج نہیں ہے۔ کیا حکومت کے ذریعہ حال کے کئی ہائی پروفائل معاملوں اور ہمارے آس پاس کے دیگر بڑے حادثات میں اسی طرح کی کارروائی کی جا رہی ہے؟ میں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتا ہوں۔

نیرو مودی کے معاملے پر وزیر اعظم نریندر مودی کو ابھی جواب دینا باقی ہے۔ 23 فروری کو نیرو مودی یا بینک کا نام لیے بغیر مودی نے کہا ’’میں ان لوگوں سے پورے بھروسے کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی گزارش کرنا چاہتا ہوں جنھیں قوانین کو تیار کرنے اور مالی اداروں میں اخلاقیات بنائے رکھنے کا کام دیا گیا ہے، خصوصاً ان لوگوں کو جنھیں نگرانی اور دیکھ بھال کی ذمہ داری دی گئی ہے۔‘‘ وزیر اعظم نے کہا ’’ہم کارروائی کرنا جاری رکھیں گے اور سرکار کے بنائے گئے نئے نظام کے ذریعہ عوام کے پیسوں کا نامناسب استعمال قبول نہیں کیا جائے گا۔

یقیناً دوسرے لوگ بھی یہی سب کہا کرتے تھے جب ان کے دور میں پیسوں کا گھوٹالہ ہوتا تھا اور اس کے بعد بھی گھوٹالے جاری رہتے تھے۔ ایک قوم اور ثقافت کے طور پر ہمارے اندر چکنی چپڑی اور لچھے دار باتیں کرنے والے گجراتی نوجوانوں سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے جو بہ آسانی ہمارے بینکنگ نظام کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق نیرو مودی گزشتہ 7 سال سے پنجاب نیشنل بینک میں گھوٹالے کو انجام دے رہے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہو سکتا کہ وہ اور ان کی فیملی گھوٹالے کے سامنے آنے کے کچھ دنوں پہلے ہی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ یقیناً حکومت کے کسی سینئر رکن نے انھیں آگاہ کر دیا کہ گھوٹالہ سامنے آنے والا ہے۔

وزیر اعظم مودی نے اپنی اسی تقریر میں، جس کا تذکرہ اوپر کیا گیا ہے، مانیٹرنگ اور وجلنس کے کام میں لگے لوگوں سے اپیل کی کہ ’’میں یہ صاف طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ اقتصادی بے ضابطگیوں کو انجام دینے والے لوگوں کے خلاف ہماری حکومت سخت قدم اٹھائے گی۔ انتظامیہ عوام کے پیسے غلط طریقے سے جمع کرنے والے لوگوں کو قبول نہیں کرے گا۔ نیا اقتصادی نظام... نئی حکومت کا یہ بنیادی منتر ہوگا۔

حکومت کے کام کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے چاہے کوئی اس پر یقین کرے یا نہ کرے، ہمیں امید کرنی چاہیے کہ ہمارا ملک عوامی پیسے کی ایسی لوٹ کے تئیں سختی سے کھڑاہوگا۔ مہتا، دلال، پاریکھ اور مودی کی اس لائن کو ختم ہونا بہت بڑی راحت ہوگی۔ یہ ہم لوگوں پر بہت بڑا کرم ہوگا اگر وزیر اعظم ’گجرات ماڈل‘ کے اس پہلو کو پورے ملک میں پھیلنے سے روک سکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔