ڈیجیٹل ارسٹ کے نام پر سنسنی خیز واردات، سابق بینکر سے 23 کروڑ روپے کی ٹھگی

ساؤتھ دہلی میں سابق بینکر نریش ملہوترا کو سائبر ٹھگوں نے ایک ماہ سے زائد ’ڈیجیٹل اریسٹ‘ میں رکھ کر 23 کروڑ روپے ٹھ لیے۔ دہلی پولیس کی سائبر یونٹ نے کارروائی کر کے 12 کروڑ روپے فریز کیے ہیں

<div class="paragraphs"><p>آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ملک بھر میں ڈیجیٹل فراڈ اور آن لائن لُوٹ کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے لیکن دہلی میں سامنے آیا تازہ معاملہ نہ صرف چونکا دینے والا ہے بلکہ اب تک کا سب سے بڑا ’ڈیجیٹل اریسٹ‘ کیس بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سنسنی خیز واردات کے شکار ہوئے ہیں سابق بینکر نریش ملہوترا، جو ساؤتھ دہلی کے گل مہر پارک میں اپنی کوٹھی میں اکیلے رہتے ہیں۔ آج تک پر شائع رپورٹ کے مطابق، شاطر سائبر مجرموں نے انہیں یکم اگست سے 16 ستمبر تک ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک ڈیجیٹل طور پر ’حراست‘ میں رکھا اور ان کی زندگی بھر کی کمائی یعنی تقریباً 23 کروڑ روپے ٹھگ لیے۔

نریش ملہوترا نے بتایا کہ وہ جولائی میں ایک سرجری کے بعد گھر پر آرام کر رہے تھے کہ یکم اگست کو شام تقریباً چار بجے انہیں ایک خاتون کا فون آیا۔ اس نے خود کو ایک بڑی ٹیلی کام کمپنی کے ہیڈکوارٹر سے بتایا اور دعویٰ کیا کہ ان کا لینڈ لائن نمبر ’کمپرومائز‘ ہو گیا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے نام پر ممبئی کے بائیکلہ علاقے میں جعلی بینک کھاتے کھولے گئے ہیں، جن کا استعمال پلوامہ دہشت گردی کیس میں 1300 کروڑ روپے کی فنڈنگ کے لیے ہوا ہے۔ خاتون نے دھمکی دی کہ این آئی اے ایکٹ کے تحت انہیں گرفتار کیا جائے گا اور شام تک ان کی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔

کال کرنے والی نے انہیں ویڈیو پر جوڑ دیا لیکن خود کبھی سامنے نہیں آئی۔ پھر ایک شخص کی تصویر دکھائی گئی اور کہا گیا کہ یہ 1300 کروڑ کا فراڈ کر چکا ہے، کیا آپ اسے جانتے ہیں؟ اس کے بعد ملہوترا سے ذاتی اور مالی تفصیلات مانگی گئیں—جیسے بینک کھاتے، ایف ڈی، لاکرز، شیئرز اور جائیداد کی معلومات۔ یہاں تک کہ ان کے گھر کے کمرے اور نوکر تک کے بارے میں پوچھا گیا۔


کچھ ہی دیر میں انہیں ایک فرضی چارج شیٹ اور ’وارنٹ‘ بھیجا گیا۔ کہا گیا کہ یہ معاملہ خفیہ ہے اور اگر کسی سے بات کی تو انہیں منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ہر دو گھنٹے میں ویڈیو پر رپورٹنگ کرنی پڑتی تھی، گویا وہ ورچوئل قید میں تھے۔

چند دن بعد ملہوترا سے کہا گیا کہ ضمانت منظور کر لی گئی ہے، بس تعاون کریں اور سبھی کھاتوں کی جانچ کرائیں۔ اس دوران ان سے شیئرز بیچوائے گئے۔ تین اگست کو انہوں نے اپنے کچھ اسٹاک فروخت کیے اور 12 کروڑ 84 لاکھ روپے حاصل ہوئے۔ یہ رقم دھیرے دھیرے مختلف اکاؤنٹس میں ٹرانسفر کروا لی گئی۔ اس سے قبل ان کے کھاتے میں موجود 14 لاکھ روپے بھی نکلوا لیے گئے۔

اسی طرح اگست سے ستمبر کے درمیان کل 22 کروڑ 92 لاکھ روپے نکلوا لیے گئے۔ یہاں تک کہ ان کے پوتے کی شادی میں جانے تک کی اجازت انہی فریب کاروں سے لینی پڑی۔

ابتدا میں انہیں کبھی ممبئی پولیس تو کبھی سی بی آئی کے فرضی افسران سے جوڑا گیا۔ بعد میں ای ڈی (انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ) کا نام سامنے لایا گیا۔ یہاں تک کہ جعلی سپریم کورٹ کے ’آرڈر‘ تک بھیجے گئے۔ ان سے کہا گیا کہ 22 کروڑ روپے واپس دلانے کے لیے مزید 5 کروڑ روپے ریزرو بینک میں جمع کرانے ہوں گے۔ جب انہوں نے براہِ راست عدالت جانے کی بات کی تو دھمکی دی گئی کہ فوری گرفتار کر لیا جائے گا۔


نریش ملہوترا کے مطابق، وہ مسلسل خوف میں جی رہے تھے۔ اہلِ خانہ اور رشتہ داروں سے ملنے کے باوجود کسی کو کچھ نہیں بتا پاتے تھے، کیونکہ فراڈیے کہتے تھے کہ خفیہ ایجنٹ ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ 24 گھنٹے نگرانی میں ہیں۔

آخرکار حوصلہ کر کے انہوں نے آن لائن شکایت درج کرائی۔ دہلی پولیس کی سائبر یونٹ (آئی ایف ایس او) نے فوری ایکشن لیتے ہوئے تحقیقات شروع کر دیں۔ اب تک اس کیس سے جڑے 12.11 کروڑ روپے مختلف بینک کھاتوں میں فریز کرائے جا چکے ہیں۔ پولیس کے مطابق رقم کو ملک بھر کے مختلف حصوں سے نکالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ معاملے کی تفتیش جاری ہے اور دیگر ملزمان کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔

یہ واقعہ اس بات کی سنگین مثال ہے کہ کس طرح تکنیک کا استعمال کر کے عام شہری ہی نہیں بلکہ مالیاتی شعبے سے جڑے تجربہ کار لوگ بھی ٹھگی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے فون یا آن لائن کالز پر کبھی یقین نہ کریں، فوراً مقامی پولیس یا متعلقہ اداروں سے رجوع کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔