موجودہ حکومت نے آئینی اقدار کو تباہ کر دیا، ہمیں اس کو پھر سے قائم کرنا ہوگا: سونیا گاندھی

مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا کہ ’’حکومت کے الفاظ اور عمل میں فرق بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے ایسا پہلے کر کے دکھایا ہے اور آگے بھی ہم یہ کر کے دکھائیں گے۔‘‘

تصویر قومی آواز/ ویپن
تصویر قومی آواز/ ویپن
user

قومی آوازبیورو

’’کچھ سال قبل ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہمیں یہاں ایسے حالات میں اکٹھا ہونا پڑے گا۔ کچھ وقت سے ہمارے ملک کی اصل روح کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جس طرح سے کچلا جا رہا ہے وہ ہم سبھی کے لیے بے حد فکر کی بات ہے۔ جن اداروں نے ہمیں بلندیوں تک پہنچایا، ان سبھی کو جان بوجھ کر قریب قریب ختم کر دیا گیا ہے۔ 65 سال میں بڑی محنت سے تیار کیے گئے عوامی فلاح کے بنیادی ڈھانچوں اور تانے بانے کو موجودہ حکومت نے پوری طرح سے برباد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔‘‘ یہ بیان یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی نے دہلی کے تال کٹورا اسٹیدیم میں منعقد ’جن سروکار سمیلن‘ سے خطاب کرتے ہوئے دیا۔ انھوں نے مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آج ہمیں وطن پرستی کے نئے معنی بتائے جا رہے ہیں اور جو لوگ ہندوستان میں موجود تنوع و یکجہتی کے خلاف کام کر رہے ہیں انھیں صحیح ٹھہرایا جا رہا ہے۔

دراصل اپوزیشن پارٹیوں نے 6 اپریل کو تال کٹورا اسٹیڈیم میں 200 غیر سرکاری اداروں کے ساتھ مل کر مودی حکومت کو گھیرنے کے مقصد سے ’جن سروکار سمیلن‘ کا انعقاد کیا تھا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا کہ ’’ہم سے امید کی جا رہی ہے کہ کھانے پینے، پہناوے، زبان اور اظہارِ رائے کی آزادی کے معاملے میں کچھ لوگوں کی منمانی ہم برداشت کریں۔ بے بس اور بے قصور لوگوں پر حملے ہوتے ہیں تو حکومت کیا کرتی ہے، وہ اپنا منھ پھیر لیتی ہے۔ موجودہ حکومت قانون کا راج نافذ کرنے سے متعلق اپنا بنیادی فرض پورا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ حکومت ملک کے کروڑوں باشندوں سے ان کی زندگی بہتر بنانے کے امکانات بھی چھین رہی ہے۔ یہ ایسی پالیسیاں بنانے میں مصروف ہے جن سے اس کے چہیتے صنعت کار اور بڑے کاروباری پھلتے پھولتے ہیں۔‘‘ مودی حکومت کے خلاف سبھی کو کھڑے ہونے کی اپیل کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں پوری ہمت کے ساتھ اس کی مخالفت کرنی ہوگی۔ ہندوستان کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو ملک کے سبھی شہریوں کے تئیں جواب دہ ہو۔ جو اپنے عزائم کے تئیں سنجیدہ اور اپنے کام میں غیر جانبدار ہو۔ ہمیں اپنے آئین کے سیکولر اور لبرل شناخت کو پھر سے بحال کرنا ہے۔ آئین میں جس بنیادی آزادی کی گارنٹی ہے انھیں پھر سے مضبوطی عطا کرنی ہوگی۔ ایک ایک شخص کی سیکورٹی اور وقار کو ایک بار پھر یقینی بنانا ہوگا۔ ہمیں ان آئینی اقدار کو پھر سے قائم کرنا ہوگا جو ہر ہندوستانی باشندہ کو اپنی رائے رکھنے کی آزادی دیتی ہے۔ ہر شخص کو برابر کا حق دیتی ہے۔ آج ہم کسی کو یہ حق چھیننے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔‘‘

یو پی اے چیئرپرسن نے اس موقع پر مودی حکومت کے خلاف کھڑے لوگوں سے مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھنے کی گزارش کی اور کہا کہ ’’میں یہاں کندھے سے کندھا ملا کر آپ کے ساتھ اسی لیے کھڑی ہوں کیونکہ ہم سب کے ذہن میں ہندوستان کے لیے ایک جیسی سوچ ہے۔ میں یہاں اسی لیے آئی ہوں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان ایک خاص رشتہ ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’جب ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت میں ہماری یو پی اے حکومت تھی تو سرکار اور سول سوسائٹی نے مل کر ایک نیا تجربہ کیا تھا جس میں قومی صلاحکار پریشد کو تنظیمی شکل دی گئی تھی اور ہم نے حکومت کی طاقت اور سول سوسائٹی کے کئی زمینی تجربے اور ان کے کاموں کو ساتھ لے کر چلنے کا طریقہ اپنایا اور عوام کو حق دینے والے قانون بنائے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ سرکاری نظام کی حدود اور روایتی طریقہ کار کی وجہ سے کئی چیلنجز آئے لیکن سول سوسائٹی کی مدد سے تال میل بنا اور ایسی پالیسیاں بنیں جن سے کروڑوں ملک کے باشندوں کی امیدوں اور خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مدد ملی۔‘‘

سونیا گاندھی نے تقریب کے دوران کانگریس کے ذریعہ جاری انتخابی منشور کے حوالے سے بھی اپنی بات رکھی اور کہا کہ ’’مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ انتخابات کے پیش نظر جو وعدے کیے جا رہے ہیں، حکومت بننے پر ان کے عمل پر نگاہ رکھنے کے لیے باقاعدہ انتظام کیا جائے گا۔ ہم یقیناً ہندوستان کو ایک ایسا ملک بنانے کی سمت میں قدم اٹھائیں گے جہاں وعدوں کی عزت ہوتی ہے، جہاں حکومت جو کہتی ہے وہ کرتی ہے۔ حکومت کی زبان میں وزن ہونا چاہیے۔ اس کے الفاظ اور عمل میں فرق بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم نے پہلے بھی یہ کر کے دکھایا ہے اور ہم آگے بھی یہ کر کے دکھائیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔