کشتی کے ذریعہ شمسی توانائی سے آبپاشی کی تکنیک تیار

معمولی اخراجات سے شمسی توانائی سے آبپاشی کی تکنیک تیار کی ہے ، جس سے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے منصوبے کی تکمیل ہوگی۔

سوشل میڈیا
سوشل میڈیا
user

یو این آئی

ڈاکٹر راجندر پرساد سنٹرل زرعی یونیورسٹی نے کشتی پر شمسی توانائی سے آبپاشی کی تکنیک تیار کی ہے جس سے ندیوں کے کنارے کی زمین میں معمولی اخراجات میں آبپاشی کر کے زیادہ سے زیادہ پیداوارحاصل کی جاسکتی ہے۔

یونیورسٹی کے سینٹر فار فیسی لٹیشن نے ملک میں ندیوں کے کنارے پر بیکار پڑی کروڑوں ایکڑاراضی میں معمولی اخراجات سے شمسی توانائی سے آبپاشی کی تکنیک تیار کی ہے ، جس سے کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے کے منصوبے کی تکمیل ہوگی۔

مرکز کے ڈائریکٹر ، مرتیو نجے کمار نے بتایا کہ کشتی پر سولر پینل سے توانائی پیدا کرکے پمپ چلایا جاتا ہے ، جس سے یومیہ ایک لاکھ لیٹر پانی نکالا جاسکتاہے۔ اس کشتی کو کسان اپنی سہولت کے مطابق الگ الگ مقامات پرلیکر آسانی سےکھیتوں کو سیراب کرسکتاہے۔

ڈاکٹر کمار نے بتایا کہ دیسی کشتی میں معمولی ردو بدل کرتے ہوئے اس کے ایک سرے پر دو ہارس پاور کا سب مرسیبل آبپاشی پمپ لگایا گیا ہے اور کشتی کے وسط میں توازن قائم کر کے چھ سولر پلیٹیں لگا ئے گئے ہیں۔ سولر پلیٹ سے حاصل ہونے والی توانائی سے پمپ کو چلایا جاتاہے جس پر کوئی خرچ نہیں آتا ہے۔

آب پاشی کے لئے لکڑی کی 26 فٹ لمبی ، چھ فٹ چوڑی اور دو فٹ گہری کشتی بنائی گئی ہے۔ اس پر لگائے گئے پمپوں سے پائپوں کی مدد سے 150 سے 200 میٹر کے فاصلے تک پانی کو پائپوں کی مدد سے کھیتوں میں پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے آگے نالے سے کھیتوں کوبھی سیراب کیا جاسکتا ہے۔

ڈاکٹر کمار نے بتایا کہ ندیوں کے کنارے زرخیز زمین ہوتی ہے ، لیکن وہاں بورنگ کے ذریعہ سے آبپاشی کرنا ممکن نہیں ہوپاتا، جس کی وجہ سے زمین کا ایک بڑا ٹکڑا بیکارپڑا رہ جاتا ہے اور کاشتکار اس سے کوئی فصل حاصل نہیں کرپاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف بہار میں ہی 9.6 لاکھ ہیکٹیئر اراضی ندی کنارے ہے جس پر سبزیوں کے علاوہ ادویاتی پودے ، مکئی اور بہت سی دوسری فصلیں کاشت کی جاسکتی ہیں۔ گنگا کے علاوہ بہار میں گنڈک ، بو ڑھی گنڈک ، کوشی ، کملا بلان ، مہانندا اور کچھ دوسری بڑی ندیاں ہیں۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر رمیش چندر سریواستو نے بتایا کہ اس تکنیک سے نہ صرف زمین کے ذریعہ ندیوں کے کنارے آبپاشی کی لاگت میں زبردست کمی واقع ہوتی ہے بلکہ اس سے کسانوں کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بہار کے ضلع سمستی پور کے پلکھی گاؤں کے کسان لال بابو ساہنی نے کامیابی کے ساتھ اس تکنیک کا استعمال کیا ہے جس سے ان کی مالی حالت بہت اچھی ہوگئی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایگریکلچر ایکسٹیشن مینجمنٹ (مینیج) حیدرآباد نے لال بابو ساہنی کو قومی ایوارڈ کے پہلے دور کے لئے منتخب کیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔