حق اور صداقت کی آواز کو کچلنے پر آمادہ ہے ’فیس بک‘

ملک و بیرون میں ایسے کئی لوگ ہیں جو سرکار کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کے خلاف سوشل میڈیا سائٹ فیس بک پر اپنی آواز بلند کرتے ہیں، لیکن کئی بار ان کی آئی ڈی کو بلاک کر آواز دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

تصویر قومی آواز / آس محمد
تصویر قومی آواز / آس محمد
user

آس محمد کیف

لکھنؤ: الٰہ آباد کے محمد زاہد (44 سال) حکومت کی کارگزاریوں کی پرزور تنقید کرتے ہیں۔ ان کی باتیں بے معنی نہیں ہیں بلکہ وہ اپنی بات سچ ثابت کرنے کے لیے دلیلیں بھی پیش کرتے ہیں، اور پھر کئی بار وہ ایسے سوال پوچھتے ہیں جو سامنے والے کو لاجواب کر دیتا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب وہ فیس بک پر اپنی آواز بلند کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کئی بار ان کی آئی ڈی سے کھلواڑ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ کئی بار تو ان کا اکاؤنٹ بند بھی کر دیا جاتا ہے۔ دلت ایشوز پر لکھنے والی لکھنؤ کی پونم لال، قطر میں بیٹھے خالد حسین، دہلی کے نوید چودھری، پلکھواکے محمد شاہین، دبئی میں مقیم عرشی خان اور ان جیسے حکومت کے ناقدین سوشل میڈیا پر اپنی باتیں رکھتے ہیں لیکن وہ فیس بک کی منمانی سے بھی نبرد آزما ہوتے رہتے ہیں۔ اظہارِ رائے کی آزادی کا نعرہ دینے والا فیس بک طرح طرح کا بہانہ بنا کر ان کے نظریات کو پھیلنے سے روک دیتا ہے۔

فیس بک پر دھواں دھار طریقے سے لکھنے والےدرجنوں چہرے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اوپر میں جن ناموں کا تذکرہ ہوا ہے وہ عام لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر اپنی باتیں رکھتے رہے ہں۔ خالد حسین (38 سال) قطر میں ملازمت کرتے ہیں، طارق انور (26 سال) چمپارن سے دنیا بھر کی خاک چھان رہے ہیں، محمد شاہین پلکھوا سے تعلق رکھتے ہیں اور چادر کا کاروبار کرتے ہیں۔ اسی طرح سدھارتھ نگر کے ماجد مجاز (32 سال) استاد ہیں، پونم لال (43 سال) لکھنؤ کی عام گھریلو خاتون ہیں، کولکاتا کے ولی رحمانی (19 سال) دہلی میں وکالت کی پڑھائی کرتے ہیں، پٹنہ کے دھرو گپتا (66 سال) ریٹائرڈ آئی پی ایس ہیں، پریاگ راج کے محمد زاہد (51 سال) کاروباری ہیں اور عرشی خان دوبئی میں ڈاکٹر ہیں۔ اسی طرح سے مزید متعدد عام لوگ ہیں جو سوشل میڈیا پر حکومت کے خلاف اپنی آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔

پریاگ راج کے محمد زاہد کو آپ اس کلچر کی مضبوط بنیاد کہہ سکتے ہیں جو کہ ’آئیڈیاز‘ تلاش کرنے میں ماہر تصور کیے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال سے فیس بک نے سب سے زیادہ ان کی ہی آئی ڈی کو بلاک کیا ہے۔ حالانکہ ان کی تحریرپر اس کا کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی شروعات ان کے ہی پوسٹس سے ہوئی، خصوصاً دلت ایشوز پر ان کے نظریہ کی بیرون ممالک میں بھی تعریف ہوئی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا

اب سوال یہ ہے کہ یہ عام لوگ آخر لکھتے کیا ہیں جس سے فیس بک مینجمنٹ کو پریشانی ہوتی ہے اور وہ ان کی آئی ڈی بلاک کر دیتا ہے۔ سدھارتھ نگر کے نوجوان ماجد مجاز کے مطابق وہ ’’اداس موسم کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘‘ ماجد کہتے ہیں کہ چونکہ میڈیا بہت پہلے سے غیر جانبدار نہیں رہا، اس لیے آج بھی ویسا ہی ہے لیکن سوشل میڈیا سے آئی آوازوں نے اب بیدار کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم انہی ایشوز پر صحیح رخ سامنے رکھتے ہیں جنھیں مبینہ مین اسٹریم میڈیا اپنے طریقے سے فائدہ کے لیے توڑ مروڑ دیتی ہے۔ ماجد کا کہنا ہے کہ یہ متبادل میڈیا کی شکل نہیں ہے کیونکہ وہ بس اپنے نظریات سامنے رکھ رہے ہیں۔

آئی ڈی بند کرنے کے علاوہ کہیں کہیں مقامی پولس کی مدد بھی لی جاتی ہے۔ مثلاً قطر میں رہنے والے خالد حسین کے خلاف بہار میں مقدمہ درج ہے۔ یہ مقدمہ ان پر مرکزی وزیر گری راج سنگھ کے خلاف قابل اعتراض باتیں لکھنے کے لیے درج کرایا گیا ہے۔ اکثر بہار پولس ان کے گھر آتی جاتی رہتی ہے۔ فیس بک پر ان کے ایک لاکھ سے زیادہ فالوور ہیں۔ کبھی کبھی فیس بک ان کی آئی ڈی کو بند کر دیتا ہے اس لیے انھوں نے کئی آئی ڈی بنائی ہوئی ہے۔ قطر میں ملازمت کر رہے خالد ملک میں رونما ہو رہے تقریباً ہر اہم ایشوز پر اپنی رائے رکھتے ہیں۔

خالد ’قومی آواز‘ کے نمائندہ سے بات چیت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’’میں دس سال سے فیس بک پر ہوں۔ چونکہ یہ ایک سوشل نیٹورکنگ سائٹ ہے اس لیے اس کے ذریعہ میں اپنے دوستوں اور گھر والوں سے بات چیت ہی کرتا رہا۔ بعد میں ہوئی تبدیلی نے مجھے لکھنے کے لیے راغب کیا۔ سیاسی اور سماجی ایشوز پر میں نے تقریباً 3 سال پہلے لکھنا شروع کیا۔ ‘‘وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’’میں 12 سال سے یہاں ملازمت ضرور کرتا ہوں لیکن میرا دل میرے ملک ہندوستان میں رہتا ہے۔ وہاں ہو رہی ایک ایک سرگرمی پر میری نظر رہتی ہے۔ مجھے جب محسوس ہوا کہ میڈیا صحیح طریقے سے اپنا کام نہیں کر رہا ہے، اس لیے میں نے اپنی بات کو فیس بک پر لکھنا شروع کیا۔ ٹوئٹر پر لفظوں کی بندش تھی۔ فیس بک پر کھل کر بات ہونے لگی۔ لوگوں کو میری بات اچھی لگی اور اب مجھے قطر میں بھی لوگ پہچانتے ہیں۔‘‘

خالد کی ہی طرح کولکاتا کے ولی رحمانی بھی سوشل میڈیا کے ایک مقبول چہرہ ہیں۔ کولکاتا کے ولی رحمانی صرف 19 سال کے ہیں اور دہلی میں رہتے ہیں۔ یہاں وہ وکالت کی پڑھائی کر رہے ہیں۔ ولی رحمانی اپنی بات کو بہترین دلائل کے ساتھ رکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے بھی فالوورس لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ یو ٹیوب ان کا پسندیدہ پلیٹ فارم ہے۔ ولی رحمانی کی سوشل سائٹس پر آنے کی کہانی بھی کافی حیران کرنے والی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں 17 سال کا تھا جب اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ بنے۔ ان کی نفرت پھیلانے والی تقریریں میں نے سنی تھیں۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست نے انھیں منتخب کیا تو بات سمجھ میں آ گئی کہ نفرت اپنا کام کر رہی ہے۔ میں نے اسی نفرت کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’شروع میں لوگوں نے میری لڑائی کو فرقہ واریت پر مبنی سمجھا لیکن جلد ہی ان کی سمجھ میں آنے لگا اور اب میرے نصف سے زیادہ حامی اکثریتی سماج سے تعلق رکھتے ہیں جو مجھے حوصلہ بخشتے ہیں۔‘‘

پولرائزیشن مخالف مہم کا کوئی رسمی اعلان تو کسی کے ذریعہ نہیں کیا گیا ہے لیکن سوشل میڈیا کے یہ ماہر لوگ عموماً نفرت کی سیاست کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ بقول محمد زاہد ’’اسی لیے کیسریا بریگیڈ کے لوگ ہماری آئی ڈی کو مارک زکربرگ کے دربار میں رپورٹ کرتے رہتے ہیں اور زکربرگ بغیر ہم سے بات کیے آئی ڈی بلاک کر دیتے ہیں۔‘‘ پونم لال کا کہنا ہے کہ انھوں نے چار آئی ڈی بنا رکھی ہے اور دیکھتے ہیں کہ آخر کون انھیں اپنی بات کہنے سے روکتا ہے۔

لیکن یہاں قابل غور ہے کہ یہ لوگ صرف بی جے پی کی تنقید نہیں کرتے بلکہ موقع ملنے پر نام نہاد جمہوری پارٹیوں کو بھی نہیں بخشتے۔ مثلاً طارق انور کہتے ہیں کہ ’’ہم بالکل آزاد ہو کر لکھتے ہیں اور ایڈیٹر کے ناراض ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘‘ طارق فیس بک پر بے حد متوازن اور مدلل و شاندار طریقے سے اپنی بات کہنے کے لیے معروف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس کی ایک وجہ میرا گھومنتو (بنجارا) ہونا ہے کیونکہ میں سماجی سرگرمیوں کو لے کر گھومتا رہتا ہوں۔ آج کل میڈیا یہ نہیں کر رہا ہے اس لیے ان کے پاس ہم جیسی جانکاری نہیں ہوتی۔ بنیادی جانکاری کا ہی اثر ہے کہ تمام مقامی سیاسی لیڈر اب مجھ سے مشورہ لیتے ہیں۔‘‘

پٹنہ سے ریٹائر ہوئے آئی جی دھرو گپتا کا ذکر اگر نہ کیا جائے تو مخالف آواز اٹھانے والوں کی فہرست ادھوری ہی سمجھی جائے گی۔ دھرو گزشتہ ایک سال میں فیس بک پر سب سے زیادہ کشش کا مرکز رہے ہیں۔ انھوں نے ہر سماجی ایشو پر اپنی رائے ظاہر کی ہے اور اسے تعریف ملی ہے۔ دھرو گپتا کے مطابق ’’میں نے صرف وہی لکھا ہے جو میرا نظریہ تھا۔ اگر میرا نظریہ کوئی سماجی خدمت کا درجہ رکھتا ہے تو یہ میرے لیے فخر کی بات ہے۔ میں ایسا کرنا جاری رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘

اب تک آپ نے اوپر ایسے لوگوں کے بارے میں پڑھا ہے جو تعلیمی طور پر ماہر لوگ ہیں، مثلاً ماجد مزاج پی ایچ ڈی کر رہے ہیں، خالد ایم بی اے ہیں، دھرو گپتا آئی پی ایس رہ چکے ہیں، ولی رحمانی وکالت کی پڑھائی کر رہے ہیں اور طارق انور ٹاٹا سوشل انسٹی ٹیوٹ سے ایم ایس ڈبلیو ہیں۔ اب کچھ ایسے لوگوں کے بارے میں بھی جان لیجیے جو بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں لیکن اپنی آواز سوشل میڈیا پر بلند کر رہے ہیں۔

پلکھوا کے محمد شاہین (46 سالہ) کی آئی ڈی بھی زکربرگ کی ٹیم بند کرتی رہتی ہے۔ سوشل میڈیا نے ان کی زندگی پوری طرح بدل دی ہے۔ شاہین چادر فروخت کرنے کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے حافظ ہیں۔ وہ صرف بارہویں تک پڑھے ہوئے ہیں، لیکن سوشل میڈیا پر ان کا جلوہ بے مثال ہے۔ وہ جارحانہ انداز میں مذہبی، سماجی اور سیاسی ایشوز پر اکثر کسی نہ کسی سے الجھتے رہتے ہیں۔ لیکن اس سب کے درمیان ان کی مقبولیت بھی سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ شاہین بتاتے ہیں کہ ’’کم از کم میری زندگی تو فیس بک نے بدل ہی دی ہے۔ ہزاروں نئے دوست بنے ہیں اور بہت سارے نئے دشمن بھی۔ وہ لیڈر جو ہم سے کبھی سیدھے منھ بات نہیں کرتے تھے، اب شاہین بھائی کہہ کر بات کرتے ہیں۔ ہم اپنی بات کہنے سے جھجکتے نہیں ہیں حالانکہ اس سے بہت زیادہ سر درد بھی ملا ہے۔ لیکن اچھا ہے، اپنے دل کی بات ہم لوگوں تک پہنچا پا رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’جب میڈیا طاقتوروں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے تو ہم غریب لوگوں کے پاس فیس بک سے اچھا کوئی ہتھیار نہیں ہے۔ ہم پوری طاقت کے ساتھ اپنی بات کہیں گے۔‘‘

لکھنؤ کی پونم لال (43 سالہ) ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ان کے والد آئی اے ایس رہ چکے ہیں اور شوہر انجینئر ہیں۔ بیٹی وکالت کر رہی ہے لیکن پونم کا سوشل میڈیا پر ڈنکا بجتا رہتا ہے۔ سرکار کی خامیاں ظاہر کرنے کے لیے وہ سوشل میڈیا پر مشہور ہے۔ پونم کہتی ہیں کہ وہ آدھا گھنٹہ بھی نیوز چینل نہیں دیکھ سکتیں، وہ جھوٹ سے بھرے ہیں اور محروم دلتوں و مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے تئیں خراب سوچ رکھ کر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’میں وہ بات لکھتی ہوں جو مجھ سمیت کروڑوں لوگوں کے من میں ہے۔ ہماری میڈیا جن کی آواز نہیں اٹھا رہی ہے ہم ان کی آواز ہیں۔‘‘

دبئی میں مقیم ڈاکٹر عرشی خان بھی سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہیں۔ ان کی آئی ڈی بھی فیس بک کی آنکھ میں چبھتی رہتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’دراصل فیس بک ہندوستان میں سب سے بڑا سوشل پلیٹ فارم بن کر ابھرا ہے جس میں کروڑوں ہندوستانی اکاؤنٹ ہے۔ فیس بک پر گزشتہ کچھ وقت سے ایک نظریہ کی مخالفت کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ جو اس نظریہ کی حمایت نہیں کرتا، فیس بک اپنی تکنیک کے غلط استعمال سے ان کی آواز دبانے کا کام کر رہا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 06 Mar 2019, 9:10 PM