کیا اسمرتی ایرانی کے غصہ کی وجہ گجرات اور وہ خود ہیں؟

'راشٹرپتی بمقابلہ راشٹر پتنی' کی بحث پرانی ہے اور بال ٹھاکرے نے پرتیبھا پاٹل کو 'راشٹر پتنی' کہا تھا لیکن کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سجاتا آنندن

کانگریس رہنما ادھی رنجن چودھری کے ذریعہ نومنتخب صدر دروپدی مرمو کو 'راشٹر پتنی' کہنے پر پارلیمنٹ میں اسمرتی ایرانی زبردست غصہ میں نظر آئیں۔ ادھیر رنجن نے پارلیمنٹ کے باہر ایک صحافی کے سامنے مبینہ طور پر توہین آمیز الفاظ بولے تھے جس کے لئے انہوں نے یہ کہتے ہوئے معذرت کی تھی کہ بات چیت کے دوران ان کی زبان پھسل گئی تھی۔ واضح رہے انہوں نے دو بار صدر کو 'راشٹرپتی' کہہ کر درست طور پر بھی مخاطب کیا تھا۔

لیکن پارلیمنٹ کے فلور پر بی جے پی اور خاص طور پر مرکزی وزیر اسمرتی ایرانی نے کانگریس صدر سونیا گاندھی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ ایوان کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد جب برسر اقتدار جماعت کے ارکان پارلیمنٹ سونیا گاندھی کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے، تو سونیا گاندھی بی جے پی کی رکن پارلیمنٹ رما دیوی کے پاس آئیں اور کہا کہ ان سے معافی مانگنے کے لئے کیوں کہا جا رہا ہے جبکہ ادھیر رنجن چودھری نے معافی مانگ لی ہے؟ بجائے جواب دینے کے بی جے ہی کے ارکان پارلیمنٹ نے ہنگامہ آرائی اور دھمکیاں دینی شروع کر دیں۔

واضح طور پر اسمرتی ایرانی اور بی جے پی کے دیگر ارکان کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ خود دستور ساز اسمبلی یعنی کانسٹیٹیونٹ اسمبلی میں ارکان نے اس پر غور کیا تھا کہ اگر کبھی کوئی خاتون صدر بنتی ہیں تو کیا انہیں 'راشٹر پتنی' کہہ کر مخاطب کیا جائے گا۔ اس موقع پر ’کرنادھار‘ جیسے دوسرے القاب بھی تجویز کیے گئے تھے لیکن جواہر لال نہرو نے یہ کہہ کر بحث کو ختم کر دیا کہ صدر کا تعلق چاہے کسی جنس سے ہو انہیں ’راشٹرپتی‘ ہی کہا جائے گا یعنی اس تعلق سے جو بی جے پی کہہ رہی ہے وہ نہرو پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مرمو ہندوستان کی پہلی خاتون صدر جمہوریہ نہیں ہیں جنہیں اس طرح مخاطب کیا گیا۔ سال 2007 میں جب پرتیھا دیوی پاٹل صدر جمہوریہ تھیں تو شیو سینا کے سپریمو بال ٹھاکرے نے انہیں 'راشٹر پتنی' کہا تھا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ ایرانی ہندوستانی زبانوں سے کتنی واقف ہیں لیکن مراٹھی، گجراتی، ہندی، تامل، ملیالم اور دیگر مقامی اخبارات کو اس وقت مشکل کا سامنا تھا کہ ایک خاتون صدر کے حوالے سے ’راشٹرپتی‘ کا ترجمہ کیسے کیا جائے۔ ان میں سے اکثر نے 'راشٹر پتنی' لکھا، جس میں یقیناً سامنا بھی شامل تھا اور بال ٹھاکرے اس کے ایڈیٹر تھے۔


اس کے بعد اتفاق رائے سے مراٹھی اخبارات نے فیصلہ کیا کہ پاٹل کو ’راشٹرادھیکش‘ کہا جانا چاہیے کیونکہ مراٹھی میں ادھیکش صدر، اسپیکر یا چیئرپرسن کو کہا جاتا ہے، تاہم یہ موزوں لفظ نہیں ہے لیکن قریبی ہے۔ اگرچہ پنڈت جواہر لال نہرو نے اصرار کیا تھا کہ ایک خاتون صدر کو بھی راشٹرپتی کہا جائے گا لیکن اس وقت تک دو نسلیں گزر چکی تھیں اور نہ ٹھاکرے، نہ کانگریس، اور نہ ہی بی جے پی نے ان کے قول پر توجہ دی۔

اگر ایرانی کانگریس لیڈر میں صنفی حساسیت کی کمی پر ناراض ہیں تو کسی کو انہیں اور بی جے پی کو یاد دلانا چاہئے کہ نریندر مودی سونیا گاندھی کو 'جرسی گائے' کہہ چکے ہیں، آنجہانی سنندا ​​تھرور کو پچاس کروڑ کی گرل فرینڈ بھی کہہ چکے ہیں۔ بنگلہ دیش کی صدر شیخ حسینہ کے لئے وہ کہہ چکے ہیں کہ 'عورت ہونے کے باوجود' وہ ملکی سرپرست ہیں۔ (گویا کہ وہ بحیثیت خاتون لیڈر بہتر تھیں) اور ممتا بنرجی کو دیدی-او-دیدی کہہ کر مخاطب کیا، جو صرف بنگال میں سڑک کنارے لڑکے خواتین کو چھیڑتے ہوئے کہتے ہیں۔

ایک اندازہ کے مطابق اسمرتی ایرانی کا اس معاملہ پر آگے آ کر بولنے کے پیچھے کانگریس ارکان کی جانب سے ان کی بیٹی کے خلاف الزام کا دفاع کرنا تھا جس میں کانگریس ارکان نے کہا ہے کہ وہ گوا میں ایک ریستوراں چلاتی ہیں جس میں گائے کا گوشت اور سور کا گوشت پیش کیا جاتا ہے، جس کی بی جے پی ملک کے دیگر حصوں میں مخالفت کر تی ہے۔ بی جے پی نے دودھ کے مقاصد کے لیے گائے کو لے جانے کے لیے معصوم لوگوں کو بھی مارا اور کم از کم ایک موقع پر کیرالہ میں خنزیر کو ذبح کر کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ سونیا گاندھی جن کی شائستگی اور وقار پہچان ہے ان پر حملہ کرنے سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے اسمرتی ایرانی خود سے توجہ ہٹا رہی ہیں۔

سونیا گاندھی کو نشانہ بنانے کی یہ کوشش اس حقیقت پر بھی توجہ دلاتی ہے کہ گجرات اسمبلی کے انتخابات تیزی سے قریب آ رہے ہیں اور آدیواسی و مسلمان ووٹ زیادہ تر اب بھی کانگریس کے پاس ہیں۔ شرد پوار اکثر کہتے ہیں کہ کانگریس کے ساتھ اتحاد میں انہیں صرف 25 فیصد ووٹوں کے لیے کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ 20 فیصد، بیشتر دلت، آدیواسی اور مسلمان شامل ہیں جو خود بخود کانگریس کو ووٹ دیتے ہیں اور اس کی وجہ نہرو گاندھی خاندان ہے۔ انہوں نے ایک بار کہا تھا، ’’یہ ان کا ذاتی ووٹ ہے جو ان سے نہیں ہٹتا اور ہم جانتے ہیں کہ جب کانگریس کی سربراہی ایک غیر گاندھی کے پاس تھی تو یہ کتنا مشکل تھا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی راہل گاندھی اور سونیا گاندھی دونوں کی ساکھ کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے کیونکہ ان کے بغیر کانگریس کی سیاسی واپسی ممکن نہیں ہے۔


ظاہر ہے بی جے پی غصے میں ہے کیونکہ مرمو کو تمام صدارتی امیدواروں میں سب سے کم ووٹ ملے ہیں۔ اس کا ان آدیواسی ہونے یا عورت ہونے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن یہ واضح ہے کہ حکومت سے مایوسی ہے، کیونکہ کراس ووٹنگ صرف ان لوگوں کی جانب سے ہو سکتی ہے جن سے بی جے پی امیدوار کی حمایت کی توقع کی جاتی ہے۔ صدارتی انتخابات میں کوئی نقصان نہیں ہوا لیکن گجرات کے انتخابات میں نقصان نہ ہو ایسا نہیں کہا جا سکتا اور شائد اسی لئے بی جے پی نے ڈرامہ رچا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔