جے این یو صدارتی مباحثہ: انتخاب سے پہلے کیمپس میں نعرے، نظریاتی ٹکراؤ اور سیاسی جوش و خروش
جے این یو میں طلبہ یونین کے صدارتی مباحثے نے کیمپس کو سیاسی میدان میں بدل دیا، جہاں دائیں اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں نے اپنے نعرے، نظریے اور آواز سے ماحول گرما دیا

بشکریہ ایکس
نئی دہلی: جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے ایمفی تھیٹر میں بدھ کی رات کا ماحول کچھ یوں تھا گویا ملک کی پارلیمان کا کوئی خاص اجلاس ہو رہا ہو۔ طلبہ یونین کے صدارتی مباحثے نے نہ صرف کیمپس کو بیدار رکھا بلکہ اسے سیاسی و نظریاتی میدان میں بدل کر رکھ دیا۔ ڈف کی تھاپ، نعروں کی گونج اور ترانوں کی صداؤں نے رات کے سناٹے کو سیاسی شور میں بدل دیا۔
پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق، یہ مباحثہ بدھ کی شب 11:30 بجے شروع ہوا اور جمعرات کی صبح تقریباً 4 بجے ختم ہوا۔ کل 13 امیدواروں کو 10-10 منٹ کا وقت دیا گیا، جن میں ہر ایک نے اپنے خیالات اور منشور کو جذباتی انداز میں پیش کیا۔ اس دوران انتخابی کمیٹی کو بارہا مداخلت کرنی پڑی کیونکہ ڈف، ڈھپلیوں اور نعروں کے شور میں مائیکروفون کی آواز دب کر رہ گئی۔
تقریب کا آغاز جموں و کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں جاں بحق 26 افراد کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے ہوا۔ اس خاموشی نے رات بھر جاری رہنے والے شور کے درمیان چند لمحوں کے لیے سنجیدگی اور غمگینی پیدا کی۔
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کی صدارتی امیدوار شِکھا سوراج نے اپنے پرجوش خطاب میں پہلگام حملے کو یاد کرتے ہوئے کہا، ’’جو کہتے ہیں دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں، کیا متاثرین سے ان کا مذہب نہیں پوچھا گیا؟‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ لال اندھیرا جلد چھٹے گا اور جے این یو کے کیمپس میں اے بی وی پی کا سورج طلوع ہوگا۔‘‘
دوسری طرف آل انڈیا اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (اے آئی ایس اے) کے امیدوار نتیش کمار نے مبینہ انتخابی دھاندلیوں پر سخت تنقید کی۔ انہوں نے طنز کیا، ’’یہ چنڈی گڑھ کے میئر کا الیکشن نہیں، یہ جے این یو ہے!‘‘ اس کے بعد انہوں نے فیض احمد فیضؔ کی مشہور نظم سنائی، ’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے۔ جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے، نظر چُرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے۔‘‘
نیشنل اسٹوڈنٹس یونین آف انڈیا (این ایس یو آئی) کے امیدوار پردیپ ڈھاکہ نے اپنے خطاب میں گوتم اڈانی سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ تک، پنجاب کے کسانوں سے لے کر آئین ہند تک سب کو موضوع بنایا۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ ملک کسی تنظیم سے نہیں بلکہ آئین سے چلے گا۔‘‘
آل انڈیا ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (اے آئی ڈی ایس او) کے امیدوار سمن نے تعلیمی وسائل کی قلت پر تشویش ظاہر کی۔ انہوں نے کہا، ’’لائبریری میں جرنل نہیں، تحقیق کے لیے فنڈز نہیں، ہمیں اعلیٰ تعلیم کے لیے ایچ ای ایف اے (ہائر ایجوکیشن فنانسنگ ایجنسی) سے قرض لینا پڑ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے بھگت سنگھ اور سبھاش چندر بوس کے طرز پر سیاست کرنے کی وکالت کی۔
آزاد امیدواروں نے بھی خاموشی سے اپنی موجودگی کا احساس دلایا، جنہوں نے بائیں اور دائیں بازو دونوں پر تنقید کی کہ انہوں نے طلبہ کے اصل مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف نظریاتی جنگ کو ترجیح دی ہے۔
اس سال کے انتخاب میں تنظیمی صف بندیاں بھی بدلی ہیں۔ طویل عرصے تک متحد رہنے والا بائیں بازو کا اتحاد اس بار تقسیم ہو چکا ہے۔ اے آئی ایس اے نے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (ڈی ایس ایف) سے اتحاد کیا ہے، جبکہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی)، برسا امبیڈکر پھولے اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن (بی اے پی ایس اے)، آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن (اے آئی ایس ایف) اور پی ایس اے نے نیا بلاک تشکیل دیا ہے۔
اے بی وی پی نے شِکھا سواراج (صدر)، نیتو گوتم (نائب صدر)، کنال رائے (جنرل سکریٹری) اور ویبھو مینا (جوائنٹ سکریٹری) کے طور پر مکمل پینل میدان میں اتارا ہے۔
اے آئی ایس اے-ڈی ایس ایف اتحاد نے بھی نتیش کمار (صدر)، منیشا (نائب صدر)، منتحیٰ فاطمہ (جنرل سکریٹری) اور نریش کمار (جوائنٹ سکریٹری) کے طور پر مکمل پینل پیش کیا ہے۔
ووٹنگ 25 اپریل کو صبح 9 بجے سے دوپہر 1 بجے تک، اور 2:30 بجے سے شام 5:30 بجے تک دو نشستوں میں ہوگی۔ کل 7,906 طلبہ ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں، جن میں 57 فیصد مرد اور 43 فیصد خواتین ہیں۔ ووٹوں کی گنتی اسی رات شروع ہوگی اور نتائج 28 اپریل تک متوقع ہیں۔
اس مباحثے نے ثابت کر دیا کہ جے این یو میں طلبہ کی سیاست محض نعرہ بازی نہیں بلکہ سنجیدہ نظریاتی اظہار کا ایک بھرپور پلیٹ فارم ہے، جہاں ہر ذاتی مسئلہ سیاسی رخ اختیار کر لیتا ہے اور سیاسی باتیں اکثر شاعرانہ انداز میں کہی جاتی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔