کشمیر میں مختلف لیڈروں کی حراست کے چھ ماہ مکمل

عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت دیگر لیڈروں کی حراست کی معیاد آج مکمل ہوگئی ہے، ان کو دفعہ 170 کے تحت حراست میں لیا گیا ہے جس میں کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ 6 ماہ تک حراست میں رکھنے کا التزام ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

سرینگر: مرکزی حکومت کی جانب سے گزشتہ سال پانچ اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے سے متعلق دفعہ 370 کی زیادہ تر شقوں کو منسوخ کرنے کے ساتھ ہی وادی میں حراست میں لئے گئے تین سابق وزرائے اعلی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے 20 سے زائد لیڈروں نے چھ ماہ کی مدت مکمل کر لی ہے۔

سابق وزرائے اعلی میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور پی ڈی پی لیڈر محبوبہ مفتی شامل ہیں، جنہیں پانچ اگست سے دفعہ 170 کے تحت احتیاطاََ حراست میں لیا گیا ہے یا نظربند کیا گیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے صدر اور سرینگر سے رکنِ پارلیمان ڈاکٹر عبداللہ کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت پہلے تین ماہ کے لئے گرفتار کیا گیا تھا کیونکہ انہیں دفعہ 170 کے تحت بند کیے جانے کو ایم ڈی ایم کے کے لیڈر وائیکو نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔


وائیکو ڈاکٹر عبداللہ کو اپنی آبائی ریاست میں ایک پروگرام میں لے جانا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ کی پی ایس اے کے تحت حراست کی معیاد بعد میں مزید تین ماہ کے لئے بڑھا دی گئی۔ حراست میں بند دیگر اعلیٰ لیڈروں میں کئی سابق وزیر، پارٹی سربراہ اور سابق اراکین اسمبلی شامل ہیں۔ ان میں پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون بھی شامل ہیں جو پی ڈی پی-بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت میں بی جے پی کے کوٹے سے وزیر بھی رہے تھے۔ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس (آئی اے ایس) کے ٹاپر رہے اور اب سیاستدان ڈاکٹر شاہ فیصل اور سابق وزیر نعیم اختر بھی اب تک حراست میں هیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک کسی بھی دیگر حراستی لیڈر نے اپنے حراست کو چیلنج نہیں کیا ہے۔

عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت زیادہ تر لیڈروں کی حراست کی معیاد بدھ کو چھ ماہ مکمل ہو گئی ہے۔ ان سبھی کو دفعہ 170 کے تحت ہی حراست میں لیا گیا ہے جس میں کسی بھی شخص کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک حراست میں رکھنے کا التزام ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان لیڈروں کو کسی نئی دفعہ کے تحت یا پی ایس اے کے تحت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔


گزشتہ دو ماہ کے دوران کچھ سابق وزراء اور اراکین اسمبلی سمیت تقریباً 25 لیڈروں کو اس شرط پر رہا کیا گیا جب انہوں نے تحریری طور پر رضامندی ظاہر کی تھی کہ وہ اب خصوصی ریاست کا درجہ ختم کرنے پر کوئی سوال یا بحث نہیں کریں گے۔ ان میں سے کئی لیڈروں نے بغیر اپنی پارٹی کی اجازت کے مختلف ممالک کے ارکان پارلیمنٹ کے ایک وفد اورلیفٹیننٹ گورنر جی سی مرمو سے ملاقات بھی کر لی ہے۔

حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے ترجمان، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ محمد یاسین ملک، ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے شبیر احمد شاہ، کشمیر بار کونسل کے میاں عبدالقیوم کے علاوہ بڑی تعداد میں علیحدگی پسند لیڈر بھی حراست میں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو دہلی میں واقع تہاڑ جیل اور مختلف ریاستوں کے جیلوں میں بند رکھا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔