’کیا عدالت ہاتھ باندھے کھڑی رہے اور کہے کہ ہم کمزور ہیں؟‘، سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے چیف جسٹس بی آر گوئی کا سوال

بی آر گوئی نے کہا کہ ’’اگر ایک آئینی ادارہ بغیر کسی درست وجہ کے اپنا کام نہیں کر رہا ہے تو کیا عدالت کو یہ کہنا چاہیے کہ ہم بے اختیار ہیں، ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔ ہمیں کوئی نہ کوئی تو فیصلہ لینا ہوگا‘‘

<div class="paragraphs"><p>سی جے آئی بی آر گوئی / تصویر ’انسٹاگرام‘</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

گورنر اور صدر جمہوریہ کو اسمبلی سے منظور شدہ بلوں کو منظوری دینے یا پھر لوٹانے کے لیے 90 دنوں کی حد مقرر کرنے پر سپریم کورٹ میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا اور سپریم کورٹ کے ججوں کے درمیان دلچسپ بحث دیکھنے کو ملی۔ دراصل صدر جمہوریہ کی جانب سے اس معاملہ میں ریفرنس داخل کیا گیا تھا۔ جمعرات (21 اگست) کو سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے حکومت کا موقف رکھتے ہوئے آرٹیکل 200 کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے اس التزام کے مطابق گورنر کے اختیارات کافی وسیع ہیں اور اس کے دائرے میں یہ آتا ہے کہ وہ اپنے صوابدید سے کسی بل پر فیصلہ لیں۔ آئینی اور سیاسی آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گورنر فیصلہ لیتے ہیں اور اس کے لیے وقت کی حد مقرر کرنا غلط ہے۔

حکومت کا موقف رکھتے ہوئے تشار مہتا نے کہا کہ گورنر اور صدر جمہوریہ ایک آئینی ادارہ ہے۔ اسی طرح عدالت بھی ایک آئینی ادارہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایک آئینی ادارہ اپنے برابر کے دوسرے اداروں کے لیے وقت کی حد کیسے طے کر سکتا ہے۔ اس پر جسٹس نرسمہا نے کہا کہ ’’ایسی صورتحال ہو گئی ہے کہ دونوں اپنی اپنی جانب سے انتہا پسندانہ موقف اپنا رہے ہیں۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے، کیونکہ ایک نے اپنا فیصلہ لے لیا ہے۔ لیکن ایسا نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک کا موقف صحیح ہے۔‘‘


اس دوران چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی نے بھی کھل کر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ’’اگر کوئی آئینی ادارہ غلطی کرتا ہے تو اس کے حل کی ضرورت ہے۔ یہ عدالت آئین کا ہی ایک حصہ ہے۔ اگر ایک آئینی ادارہ بغیر کسی درست وجہ کے اپنا کام نہیں کر رہا ہے تو پھر کیا عدالت کو یہ کہنا چاہیے کہ ہم بے اختیار ہیں اور ہمارے ہاتھ بندھے ہیں۔ ہمیں کوئی نہ کوئی تو فیصلہ لینا ہوگا۔‘‘ دوسری جانب سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کے دائرہ اختیار پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معاملوں کو عدالت میں لے جانا اور اس کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہے۔

تشار مہتا نے کہا کہ مان لیجیے کہ گورنر کسی بل پر فیصلہ نہیں لے رہے ہیں تو اس کے سیاسی حل ہیں۔ ایک وفد ایسے معاملوں میں وزیر اعظم یا صدر جمہوریہ کے پاس جا سکتا ہے، اس طرح معاملہ حل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عدالت کی جانب سے وقت کی حد مقرر کی جائے۔ ایسے معاملے کئی ریاستوں میں سامنے آئے ہیں، سیاسی پختگی سے ہی ایسے معاملے حل ہوئے ہیں۔ اس پر جسٹس نرسمہا نے کہا کہ ٹھیک ہے، ہم وقت کی حد مقرر نہیں کریں گے، لیکن ایک پراسیس تو ہونا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔