شیوسینا تنازعہ: سپریم کورٹ نے مہاراشٹر کے اسپیکر کو لگائی پھٹکار

چیف جسٹس آف انڈیا کی بنچ نے کہا کہ ان کے حکم کو 4 ماہ گزر چکے ہیں، 11 مئی کے فیصلے کے بعد کیا کارروائی کی گئی جس میں اسے ’مناسب وقت‘ کے اندر عرضیوں پر فیصلہ دینے کے لیے کہا گیا تھا۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آوازبیورو

سپریم کورٹ نے پیر کے روز شیوسینا تنازعہ میں وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور ان کے خیمہ کے خلاف داخل نااہلیت کی عرضی پر فیصلہ لینے میں تاخیر سے متعلق ادھو ٹھاکرے گروپ کے ذریعہ داخل عرضی پر مہاراشٹر اسمبلی اسپیکر راہل نارویکر کی سخت تنقید کی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ جے بی پاردیوالا اور منوج مشرا کی بنچ نے ان اراکین پارلیمنٹ کی نااہلیت پر فیصلے میں تاخیر کے ایشو پر سخت تنقید کی، جنھوں نے ٹھاکرے گروپ کو چھوڑ دیا اور شندے گروپ کے ساتھ اتحاد کر لیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسپیکر کو سپریم کورٹ کے وقار کا خیال رکھنا ہوگا اور اس کے فیصلے کو چار مہینے گزر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم صرف نوٹس کی سطح پر ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ اس کے 11 مئی کے فیصلے کے بعد کیا کارروائی کی گئی، جس میں اسے ’مناسب وقت‘ کے اندر عرضیوں پر فیصلہ دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ عدالت نے تبصرہ کیا کہ اسپیکر اپنے پیر کھینچنا جاری نہیں رکھ سکتے اور ہدایت دیا کہ وہ متعلقہ معاملے کی سماعت ایک ہفتہ سے پہلے نہیں کریں گے۔


عدالت عظمیٰ نے 14 جولائی کو نوٹس جاری کیا تھا اور راہل نارویکر اور ایکناتھ شندے سے دو ہفتہ کے اندر جواب مانگا تھا۔ شیوسینا-یو بی ٹی لیڈر سنیل پربھو کے ذریعہ داخل عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ اسپیکر ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ کی شکل میں ناجائز طریقے سے جاری رکھنے کی اجازت دینے کے لیے نااہلیت والی عرضیوں پر فیصلہ لینے میں تاخیر کر رہے ہیں، جن کے خلاف نااہلیت کی عرضیاں زیر التوا ہیں۔

شندے اور ان کے خیمے کے خلاف زیر التوا نااہلیت کی عرضیوں پر فیصلہ لینے میں اسپیکر کے ذریعہ کی گئی تاخیر کے خلاف ٹھاکرے گروپ نے 4 جولائی کو عدالت عظمیٰ کا رخ کیا تھا۔ 11 مئی کو سپریم کورٹ کی ایک آئینی بنچ نے ہدایت دی تھی کہ مہاراشٹر اسپیکر کو پارٹی مخالف سرگرمیوں کے ملزم ایکناتھ شندے سمیت 16 شیوسینا اراکین اسمبلی کے خلاف ’مناسب وقت میں نااہلیت عرضیوں پر فیصلہ کرنا چاہیے‘۔


عدالت عظمیٰ نے 29 جون کو اپنے فیصلے میں ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ عہدہ پر بحال کرنے سے انکار کر دیا تھا، کیونکہ انھوں نے ایوان میں ’طاقت کا مظاہرہ‘ کا سامنا کرنے سے پہلے اپنی مرضی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ پانچ ججوں نے اتفاق رائے سے مانا تھا کہ اُس وقت کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ذریعہ اکثریت ثابت کرنے کے لیے ٹھاکرے کو بلایا جانا مناسب نہیں تھا، لیکن انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ خالی ہونے کے بعد شندے کو حکومت بنانے کے لیے مدعو کرنا مناسب تھا، کیونکہ ٹھاکرے نے استعفیٰ دے دیا تھا۔

پربھو کی جگہ پر بھرت گوگاولے (شندے گروپ سے) کو شیوسینا کے چیف وہپ کی شکل میں منظوری دینے کے اسپیکر کے ذریعہ لیے گئے فیصلے کو ’قانون کے خلاف‘ قرار دیتے ہوئے چیف جسٹس چندرچوڑ کی قیادت والی آئینی بنچ نے کہا تھا کہ سیاسی پارٹی ایوان میں وہپ اور پارٹی لیڈر کی تقرری کرتا ہے، نہ کہ قانون ساز پارٹی کرتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔