متھرا: شاہی عیدگاہ مسجد-کرشن جنم بھومی تنازعہ پر آج الہ آباد ہائی کورٹ میں اہم سماعت
شاہی عیدگاہ مسجد اور کرشن جنم بھومی تنازعے پر آج الہ آباد ہائی کورٹ میں اہم سماعت ہوگی اور مقدمے کے قانونی نکات طے ہوں گے۔ مسلم فریق مسجد کی تاریخی حیثیت جبکہ ہندو فریق مندر کے حق کا دعویٰ کر رہا ہے

متھرا کے شاہی عیدگاہ مسجد اور کرشن جنم بھومی کے تنازعہ پر ایک بار پھر سب کی نظریں جمی ہیں۔ الہ آباد ہائی کورٹ میں جمعہ دوپہر دو بجے اس حساس معاملے کی سماعت ہوگی۔ جسٹس رام منوہر نارائن مشرا کی سنگل بنچ فریقین کے دلائل سنے گی اور آئندہ کارروائی کے لئے قانونی نکات طے کرنے پر غور کرے گی۔
یہ معاملہ نہ صرف مذہبی جذبات بلکہ زمین کی ملکیت اور تاریخی حیثیت سے بھی جڑا ہے۔ مسلمانوں کا موقف ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد کئی صدیوں سے قائم ہے اور اس کی تاریخی اور قانونی حیثیت مسلمہ ہے۔ ان کے مطابق مسجد کے قیام پر سوال اٹھانا مذہبی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ مسلم فریق کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ مقدمات میں مسجد کے وجود اور اس پر عبادت کے حق کو برقرار رکھنے کے لیے مضبوط قانونی بنیاد موجود ہے۔
دوسری طرف ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ موجودہ مسجد اسی جگہ تعمیر کی گئی جہاں پہلے قدیم کیشو دیو مندر ہوا کرتا تھا۔ ان کا الزام ہے کہ 17ویں صدی میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے اس مندر کو منہدم کر کے اس جگہ مسجد بنوائی۔ ہندو فریق نہ صرف مندر کے دوبارہ تعمیر اور زمین کے مالکانہ حقوق کا مطالبہ کر رہا ہے بلکہ اس پورے احاطے میں پوجا پاٹھ کے حق کے لیے بھی عدالت سے رجوع کر چکا ہے۔
یہ تنازعہ برسوں سے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت رہا ہے، تاہم اکتوبر 2023 سے الہ آباد ہائی کورٹ نے اس کی سماعت کو ایودھیا رام جنم بھومی کیس کی طرز پر براہ راست اپنے دائرہ اختیار میں لیا۔ عدالت نے تمام متعلقہ درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت شروع کی تاکہ طویل عرصے سے زیر التوا مقدمات کا جلد فیصلہ کیا جا سکے۔ اس وقت اس تنازعے سے جڑی 18 سے زائد درخواستیں ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
جمعہ کی سماعت میں یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عدالت مقدمے کے اہم نکات طے کرے گی، جن پر آئندہ تفصیلی بحث ہوگی۔ اس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ عدالت کن قانونی پہلوؤں پر غور کرے گی، جیسے زمین کی ملکیت، پوجا اور عبادت کے حقوق، اور ممکنہ طور پر آثار قدیمہ کے سروے کا سوال بھی شامل ہو سکتا ہے۔
اس تنازعے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے تمام فریقین محتاط رویہ اختیار کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے شاہی عیدگاہ مسجد کی تاریخی اور قانونی حیثیت کو برقرار رکھنے پر زور دیا جا رہا ہے جبکہ ہندو فریق مذہبی عقیدت کی بنیاد پر زمین کے حق اور مندر کی بحالی کی مانگ کر رہا ہے۔ عدالت کے آئندہ فیصلے کا اثر نہ صرف مَتھُرا بلکہ پورے ملک کی مذہبی ہم آہنگی پر پڑ سکتا ہے۔