امت شاہ کا ’آدھا سچ‘ شاہین باغ خواتین مظاہرین کو ناقابل قبول

پارلیمنٹ میں امت شاہ کی تقریر کو آدھا سچ قرار دیتے ہوئے شاہین باغ کی خواتین مظاہرین نے سی اے اے، این پی آر اور مجوزہ این آر سی کی واپسی تک احتجاج جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ایشلن میتھیو

نئی دہلی: مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے این پی آر پر بولے گئے آدھے سچ کو مسترد کرتے ہوئے خواتین اور سماجی کارکنوں نے ایک بار پھر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ موجودہ قانون میں تبدیلی کی جائے تاکہ این پی آر کے ذریعے کسی بھی شہری کو مشکوک قرار نہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی خواتین نے شاہین باغ میں دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

واضح رہے کہ دہلی کے شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، مجوزہ این آر سی اور این پی آر کے خلاف دہلی کے شاہین باغ علاقے میں گزشتہ 91 دنوں سے احتجاجی مظاہرہ جاری ہے۔ دریں اثنا، دہلی فسادات پر راجیہ سبھا میں بحث کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ این پی آر میں کسی کو کوئی کاغذ دکھانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جس قانون کے تحت این پی آر پر عمل درآمد ہوگا اس کے ضوابط کے مطابق رجسٹرار چاہے تو کسی بھی شہری کو مشکوک قرار دے سکتا ہے۔


امت شاہ کے بیان پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے 70 سالہ نورالنسا کہتی ہیں، ’’لوگ سمجھدار ہیں اور ہمیں یاد ہے کہ امت شاہ نے سی اے اے اور این آر سی کی کرونولوجی سمجھائی تھی۔ اب وہ ہمیں گمراہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہم خواتین ہیں اور ہم کچھ سمجھ نہیں پائیں گے۔ ہمارے پاس زندگی کا تجربہ ہے اور اسی وجہ سے ہم سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

دھرنے میں شرکت کے لئے آنے والی پرکاش دیوی کا یہ بھی کہنا ہے ’’ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ آج ہم سے یہ سوال پوچھے ہی کیوں جا رہے ہیں؟‘‘ آج وہ این پی آر کریں گے اور ایک سال کے بعد اسی ڈیٹا کی بنیاد پر این آر سی نافذ کر دیں گے۔ ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔‘‘

دھرنے پر بیٹھیں نور النسا اور مہر النسا
دھرنے پر بیٹھیں نور النسا اور مہر النسا

شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی 50 سالہ مہر النسا کا کہنا ہے ’’اگر وزیر داخلہ سی اے اے شہریت ترمیمی قانون پارلیمنٹ سے منظور کر سکتے ہیں تو انہیں اس قانون میں ترمیم بھی پارلیمنٹ میں کرنی چاہئے۔ یہ لڑائی ملک کے غریبوں اور آنے والی نسلوں کے لئے ہے، اگر ہم آج نہیں لڑتے ہیں تو آنے والی نسل بھی غلام ہو جائے گی۔‘‘


شاہین باغ میں جائے احتجاج پر موجود نوجوان خاتون حنا خان نے کہا، ’’آخر ہم سے احتجاجی تحریک واپس لینے کو کیوں کہا جا رہا ہے؟ سوال یہ ہے کہ این پی آر کو مردم شماری سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟ ہمیں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات سے کیوں جوڑا جارہا ہے؟ جب دہلی پولیس کو 1500 سے زیادہ کال کی گئیں تو پولیس نے کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ جامعہ کے طلباء پر 16 دسمبر کو پولیس مظالم کے بعد سے ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ امیت شاہ ایک جملہ باز ہیں اور وہ کسی ادارے کا احترام نہیں کرتے۔‘‘

وہیں اپرنا نے کہا، ’’صرف وہی حکومت ایسا کر سکتی ہے جسے اپنے ملک کے شہریوں اور خواتین کی کوئی فکر نہیں ہے۔ ہمارے لئے کام کرنا ہے حکومت کا فرض ہے اور اگر ہم حکومت سے خوش نہیں ہیں، قانون سے خوش نہیں ہیں تو پھر اسے واپس لینا چاہئے۔ حکومت کا کام مسئلہ کو حل کرنا ہے، نہ کہ اسے بڑھانا۔ اگر حکومت کو کورونا وائرس کی فکر ہے، تو سی اے اے کو واپس لے لیا جائے، ہم گھر چلے جائیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 15 Mar 2020, 10:40 AM