شاہین باغ خاتون مظاہرہ: قیادت سے محروم لیکن دماغ سے نہیں

گروپوں میں ایک رائے نہ ہونے کی وجہ سے فیصلے لینے میں دشواری ضرور ہو رہی ہے لیکن تمام اختلافات کے باوجود ہر کوئی اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ وہ ’کالے قانون‘ کو واپس کروائے بغیر شاہین باغ سے نہیں ہٹے گا

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

شاہین باغ میں سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جاری احتجاج کو دو ماہ ہو چکے ہیں۔ خاتون مظاہرین کی جانب سے ایک سُر میں مسلسل یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے لیکن اپنے ارادوں پر اٹل اور جوش سے لبریز ان مظاہرین کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور اکثر ان میں اختلافات بھی نظر آ جاتے ہیں، حالاننکہ اختلافات کا ہونا ایک فطری بات ہے۔

شاہین باغ مظاہرین میں آئے دن اختلاف رائے نظر آتی ہے کہ فلاں کام تم نے کس سے پوچھ کر کیا یا فلاں قدم تم نے کیوں اٹھایا؟ جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں ویسے ویسے مظاہرین کی قیادت کا یہ بحران گہراتا جا رہا ہے۔ آج شاہین باغ کی صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی کبھی بھی اسٹیج پر آ کر کوئی اعلان کر دیتا ہے اور پھر بعد میں کوئی اور اسٹیج پر آتا ہے اور اس اعلان کو مسترد کر دیتا ہے۔ یہ اختلافات اس وقت بھی نظر آئے جب سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کئے گئے مذاکرات کار سنجے ہیگڑے اور سادھنا رام چندرن مظاہرین سے بات کرنے کے لئے وہاں پہنچے۔ ان اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذاکرات کار جو مظاہرین سے گفتگو کر کے بہت زیادہ متاثر تھے انہوں نے خود کہا کہ وہ یہاں دوبارہ نہیں آ سکتے کیونکہ یہاں بات کرنے کا ماحول نہیں ہے!


میڈیا کے سامنے کون بیان دیگا اس کو لے کر بھی کھینچ تان صاف نظر آتی ہے۔ اگر کوئی شخص میڈیا کے سامنے آ کر کچھ بولتا ہے تو دوسرا شخص میڈیا کے سامنے ہی اسی بات کی تردید کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی معلومات واضح تو کیا ہو، الٹے لوگ الجھن میں پڑ رہے ہیں۔

شاہین باغ میں ’دادیوں‘ کے نام پر سب سے زیادہ سیاست نظر آ رہی ہے۔ یہ وہ عمر رسیدہ خواتین ہیں جو مظاہرہ کا چہرہ بن چکی ہیں اور انہیں اب ’دبنگ دادیوں‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ جب کوئی بات نہیں سنتا یا کسی کو اپنا موقف پیش کرنا ہوتا ہے تو وہ بس دادی کے منہ سے اپنی بات کو کہلوا دیتا ہے، اس سے اس کی بات بڑی ہو جاتی ہے۔ وہیں کوئی دوسرا شخص دادی سے اسی بات کی تردید کروا دیتا ہے۔


شاہین باغ میں ایک سے زیادہ گروپ تشکیل ہوتے نظر آ رہے ہیں اور ہر ایک گروپ کی کوئی نہ کوئی سربراہی بھی کرتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر گروہ کے لوگ منتظمین بنے ہوئے ہیں اس کی وجہ سے کچھ بھی طے نہیں ہو پا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں گروپوں میں ان بن ہو جاتی ہے اور فیصلے لینے میں دشواری ہوتی ہے لیکن ان تمام اختلافات کے باوجود ہر کوئی اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ وہ ’کالے قانون‘ کو واپس کروائے بغیر شاہین باغ سے نہیں ہٹے گا۔

شاہین باغ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہو رہے مظاہروں میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں شرکت کرنے والے مظاہرین کے پاس جو دماغ ہے اور جو اپنی بات رکھنے کا انداز ہے وہ قابل ستائش ہے اور اسی لئے اس مظاہرہ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ’مظاہرہ قیادت سے ضرور محروم ہے لیکن دماغ سے نہیں۔‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Feb 2020, 8:30 PM