لاک ڈاؤن کے باوجود شاہین باغ تحریک جاری، الگ الگ تخت پر بیٹھی ہیں 5 خواتین

مظاہرہ میں بیٹھی ایک خاتون نے کہا کہ ”کورونا کے خطرات کے پیش نظر لوگوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔ صرف پانچ خواتین مظاہرے کے مقام پر بیٹھ کر احتجاج کو جاری رکھیں گی۔“

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: کورونا وائرس کے خطرات کو دیکھتے ہوئے پوری دہلی اگرچہ لاک ڈاؤن کر دی گئی ہے لیکن شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون (سی اےاے) کے خلاف احتجاج اب بھی جاری ہے۔ مظاہرے کے مقام پر اگرچہ صرف چار سے پانچ خواتین الگ الگ تخت پر بیٹھی ہیں اور خالی پڑے تختوں پر چپل رکھ کر علامتی احتجاج کیا جا رہا ہے۔

مظاہرین میں شامل ایک خاتون شگفتہ احمد نے يواین آئی سے بات چیت میں کہا کہ کورونا کے خطرات کے پیش نظر لوگوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی گئی ہے۔ پانچ خواتین مظاہرے کے مقام پر بیٹھ کر احتجاج کو جاری رکھیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انہیں انتظار ہے۔ عدالت کی جانب سے جو فیصلہ آئے گا اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔


انہوں نے کہا کہ ان کا احتجاج آئین کو بچانے اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کے لئے جاری رہے گا۔ جنتا کرفیو کے دوران بھی شاہین باغ کی پانچ خواتین مظاہرے کے مقام پر بیٹھی رہیں۔ کورونا کے خطرات کو دیکھتے ہوئے پہلے ہی بچے اور بوڑھوں کو گھروں کے اندر رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

پولیس کی جانب سے اگرچہ مسلسل مظاہرین کو سڑک سے ہٹانے کے لئے مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن خواتین وہاں سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ دہلی لاک ڈاؤن ہونے کے بعد مظاہرین کو شاہین باغ سے ہٹانے کے سوال پر پولیس فی الحال خاموش ہے۔ پولیس کے ایک افسر سے اس سلسلے میں ان کا ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے سوال کو ٹال دیا۔


واضح ر ہے کہ مظاہرین سی اےاے، قومی شہری رجسٹر (این آر سی) اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کے خلاف شاہین باغ میں 100 دنوں سے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ پولیس کے ساتھ ساتھ عدالت عظمی کی جانب سے مقرر کیے گئے مذاکرات کاروں کی کوشش کے باوجود خواتین اپنے مطالبات پر بضد ہیں۔ مظاہرے کے مقام کے پاس سینکڑوں قومی بین الاقوامی کمپنیوں کے شوروم اور فرنچائزز موجود ہیں لیکن تحریک کی وجہ سے مکمل طور بند ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔