شاہین باغ: ’یہاں صرف ہندوؤں کی چلے گی‘ فائرنگ کرنے والے انتہا پسند کی دھمکی

شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف گزشتہ ڈیڑھ مہینے سے دھرنے پر بیٹھی خواتین کے درمیان پہنچ کر ایک لڑکے نے فائرنگ کر دی جس کے بعد ایک بار پھر دہلی پولس پر سوال اٹھنے لگے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

شاہین باغ میں سینکڑوں خواتین دھرنے پر بیٹھی ہوئی ہیں اور اس درمیان ایک شخص نے فائرنگ کر دی جس کے بعد افرا تفری کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ میڈیا ذرائع سے موصول ہو رہی خبروں کے مطابق فائرنگ کرنے والے شخص کا نام کپل گوجر ہے جو کہ دہلی واقع دلو پورہ کا رہنے والا ہے۔ فائرنگ کے بعد پولس نے ملزم کو گرفتار کر لیا ہے اور اسے گاڑی میں بٹھا کر تھانہ لے گئی ہے۔ فائرنگ کے بعد جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس نے میڈیا کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’ہمارے ملک میں اور کسی کی نہیں چلے گی، صرف ہندوؤں کی چلے گی۔‘‘


اس فائرنگ واقعہ کے بعد شاہین باغ مظاہرہ میں بیٹھی خواتین کے درمیان کافی ہلچل پیدا ہو گئی۔ انھیں کچھ ذمہ دار خواتین نے مائیک پر خاموشی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے کہا اور ماحول کو پرامن بنانے کی کوشش کی۔ ’قومی آواز‘ کو ملے کچھ ویڈیوز میں مائیک سے یہ اعلان ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ سبھی بیٹھ جائیں اور افرا تفری نہ پھیلائیں۔ مائیک پر یہ بھی کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ کسی کو کچھ نہیں ہوا ہے، اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ خواتین ان اعلانات کو سن کر پرامن انداز میں ٹینٹ کے اندر بیٹھتی ہوئی نظر آئیں۔


اس واقعہ کے بعد اوکھلا کے سابق رکن اسمبلی آصف محمد خان نے بڑا بیان دیا ہے۔ انھوں نے سیدھے طور پر دہلی پولس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ بھی شاہین باغ میں آج ہوا ہے اس کے لیے ذمہ دار پولس ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’شاہین باغ مظاہرہ میں موجود لوگوں نے بتایا کہ فائرنگ کرنے والا شخص پولس اہلکاروں کے ساتھ ہی بیریکیڈ کے اندر آیا اور فائرنگ کے بعد جب لوگوں نے اس بدمعاش کو پکڑنے کی کوشش کی تب جا کر پولس نے اسے گرفتار کیا اور اپنی حفاظت میں لے کر اسے چلی گئی۔‘‘ آصف محمد خان نے یہ بھی کہا کہ ’’جامعہ فائرنگ کرنے والے لڑکے کو بھی پولس نے فائرنگ کے بعد گرفتار کیا اور تھانہ لے جانے کے بعد اسے خود ہی نابالغ ثابت کر دیا۔ ابھی تک اس کی فورنسک جانچ بھی نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ شاہین باغ میں جو کچھ ہوا وہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے اور پولس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘


واضح رہے کہ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب جامعہ ملیہ اسلامیہ کیمپس کے باہر طلبا کے احتجاجی مارچ پر مبینہ طور پر ایک نابالغ لڑکے نے فائرنگ کر دی تھی۔ اس فائرنگ میں شاداب نامی طالب علم زخمی بھی ہوا تھا۔ یہ واقعہ 30 جنوری کو پیش آیا جب طلبا اور کچھ مقامی لوگ راج گھاٹ کے لیے مارچ نکال رہے تھے۔ اس واقعہ کا جو ویڈیو سامنے آیا ہے اس میں صاف نظر آرہا ہے کہ پولس کچھ ہی دوری پر کھڑی ہے اور نابالغ لڑکا کٹّہ لہرا کر دھمکیاں دیتا ہے، لیکن پولس اسے تب گرفتار کرتی ہے جب وہ فائرنگ کر چکا ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔