مودی-شاہ کمپنی نے کچھ اس طرح دیا ’مشن کشمیر‘ کو انجام، سب کچھ تھا ’ٹاپ سیکریٹ‘

امت شاہ نے بجٹ اجلاس کی شروعات سے پہلے ہی آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور ان کے معاون بھیا جی جوشی کو دفعہ 370 ہٹانے اور جموں و کشمیر کو دو الگ الگ یو ٹی میں بانٹنے کے منصوبہ سے مطلع کردیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے اور ریاست کے ٹکڑے کرنے کے وزیر اعظم نریندر مودی کے مشن کی شروعات دراصل جون کے تیسرے ہفتے میں ہی شروع ہو گئی تھی جب انھوں نے 1987 بیچ کے چھتیس گڑھ کیڈر کے آئی اے ایس افسر بی وی آر سبرامنیم کو جموں و کشمیر کا نیا چیف سکریٹری مقرر کیا۔

سبرامنیم نے پی ایم او (وزیر اعظم دفتر) میں جوائنٹ سکریٹری کی شکل میں وزیر اعظم کے ساتھ پہلے بھی کام کیا تھا۔ وہ مودی کے ’مشن کشمیر‘ سے جڑے اہم افسران میں سے ایک تھے۔ مشن کشمیر کا مکمل کام مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو دیا گیا تھا جو وزیر قانون روی شنکر پرساد کے ساتھ مل کر اپنی کور ٹیم کے ساتھ قانونی پیچیدگیوں کا جائزہ لے رہے تھے، جس میں سکریٹری برائے قانون اور انصاف آلوک شریواستو، ایڈیشنل سکریٹری قانون (وزارت داخلہ) آر ایس ورما، اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال، مرکزی داخلہ سکریٹری راجیو گوبا اور کشمیر ڈویژن کی ان کی منتخب ٹیم شامل تھی۔


شاہ نے بجٹ اجلاس کی شروعات سے پہلے ہی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت اور ان کے معاون (جنرل سکریٹری) بھیا جی جوشی کو دفعہ 370 کو ہٹانے اور جموں و کشمیر کے دو الگ الگ مرکز کے ماتحت ریاستوں میں بانٹنے کے مرکزی حکومت کے نظریات سے مطلع کر دیا تھا۔

قانونی صلاح و مشورے کے بعد شاہ کا دھیان دفعہ 370 ہٹانے کے بعد وادی میں قانون اور انتظام کی حالت سنبھالنے پر تھا۔ شاہ سے جڑے ایک ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعظم کی صلاح پر شاہ نے قومی سیکورٹی مشیر (این ایس اے) اجیت ڈووال کے ساتھ کئی دور کی میٹنگ کی۔

ذرائع نے بتایا کہ شاہ نے جب ایک بار کشمیر کی حالت کا خود تجزیہ کرنے کے لیے سری نگر بھیجا گیا۔ این ایس اے نے وہاں تین دنوں تک ڈیرا ڈالا۔ اس کے بعد 26 جولائی کو امرناتھ یاترا روکنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد وادی سے سبھی سیاحوں کو نکالنے کی صلاح بھی ڈووال نے ہی دی تھی۔ اس کے بعد قومی نیم فوجی دستوں کی 100 اضافی کمپنیوں کی تعیناتی سیکورٹی انتظام کے مدنظر کی گئی۔


جموں و کشمیر کے چیف سکریٹری سبرامنیم جو وزیر اعظم دفتر اور وزارت داخلہ کے ساتھ رابطہ میں تھے، انھوں نے گراؤنڈ زیرو پر کئی سیکورٹی اقدام اٹھانے کا خاکہ تیار کیا جس میں پولس، نیم فوجی دستوں اور انتظامیہ کے اہم افسران کے ذریعہ سیٹلائٹ فون کا استعمال کرنے، حساس شہری اور دیہی علاقوں میں کیو آر ٹی (کوئک رسپانس ٹیم) کی تعیناتی کرنے، اور فوج کے ذریعہ کنٹرول لائن پر چوکسی بڑھانے جیسے قدم شامل تھے۔ فوج، سیکورٹی ایجنسیوں اور سنٹرل نیم فوجی دستوں کے سربراہ مرکزی وزارت داخلہ اور ریاست کے چیف سکریٹری کےساتھ چوبیسوں گھنٹے رابطہ میں تھے۔

4 اگست کی اہم رات کو چیف سکریٹری نے پولس ڈائریکٹر جنرل (جموں و کشمیر) دلباغ سنگھ کو کئی احتیاطی قدم اٹھانے کی ہدایت دی گئی، جن میں اہم لیڈروں کی گرفتاری، موبائل اور لینڈ لائن خدمات بند کرنے، دفعہ 144 نافذ کرنے اور وادی میں کرفیو کے دوران سیکورٹی فورسز کی گشتی بڑھانا شامل ہے۔


اس سے قبل دہلی میں شاہ نے اپنی ایک دیگر اہم ٹیم کو کام پر لگایا جس میں راجیہ سبھا رکن انل بلونی اور بھوپیندر یادو شامل تھے۔ اس ٹیم کو ایوان بالا کے اراکین کی حمایت حاصل کرنے کا کام سونپا گیا، جہاں بی جے پی کو اکثریت نہیں ہے۔ اس ٹیم نے ٹی ڈی پی کے راجیہ سبھا اراکین کو توڑا اور سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ نیرج شیکھر، سریندر ناگر، سنجے سیٹھ اور کانگریس رکن پارلیمنٹ سجے سنگھ کو راجیہ سبھا سے استعفیٰ دلوانے کا انتظام کیا۔ اس کے بعد بی جے پی کو ایوان بالا میں کافی طاقت ملی۔ وہیں، 12ویں گھنٹے میں ٹیم بی ایس پی (بہوجن سماج پارٹی) کے لیڈر ستیش مشرا کی حمایت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

اس دوران امت شاہ نے سرکردہ صحافیوں (جن کی وزارت داخلہ تک پہنچ تھی) کے ساتھ بھی بند کمروں میں میٹنگ کی اور اس انتہائی حساس ایشو پر متوازن رپورٹنگ کرنے کی تاکید کی۔ شاہ کاپورا زور اعلیٰ سطح کی رازداری برقرار رکھنے پر تھا، جب تک کہ وہ اس بل کو راجیہ سبھا میں 5 اگست کو پارلیمنٹ کے ڈیسک پر پیش نہیں کرتے۔


ذرائع نے بتایا کہ 2 اگست کو شاہ کو بھروسہ تھا کہ ان کی پارٹی کو راجیہ سبھا میں مناسب حمایت حاصل ہو گئی ہے اور پیر کو ایوان بالا میں اس تاریخی بل (جموں و کشمیر کے دو ٹکڑے کرنے) کو پیش کیا گیا۔ اس دوران بی جے پی اراکین پارلیمنٹ کو وہپ جاری کیا گیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں موجود رہیں جہاں اہم بل پاس کیے جانے ہیں۔

اعلیٰ عہدوں پر فائز ذرائع نے بتایا کہ آخر کار ہفتہ کے آخر میں مودی اور شاہ نے پیر کو کابینہ کی میٹنگ بلانے اور وزراء کو مشن کشمیر کی جانکاری دینے کا فیصلہ کیا اور ایوان سے پہلے اس سلسلے میں قرارداد پاس کی گئی۔ اسی طرح وزارت برائے قانون و انصاف کو دفعہ 370 ختم کرنے کا نوٹیفکیشن صدر جمہوریہ سے جلد جاری کروانے کا کام سونپا گیا۔


راجیہ سبھا میں شور شرابے کے درمیان پیر کے روز امت شاہ نے جب بل پیش کیا تو بی جے پی کے ایک رکن پارلیمنٹ نے رد عمل پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’شاہ کا مشن کبھی ناکامیاب نہیں ہوتا۔ وہ نئے سردار (ولبھ بھائی پٹیل) ہیں۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔